You are currently viewing حضرت موسی کی دعا اور من و سلوی

حضرت موسی کی دعا اور من و سلوی

کچھ عرصہ تک اطمینان سے رہے پھر دوبارہ گناہ میں مبتلا ہو گئے اور عذاب کو بھول گئے ۔ اللہ نے پھر ان پر عذاب نازل کیا تو حضرت موسیٰ کے پاس آئے اور گناہوں کا اعتراف کیا اپنی گمراہ کن حرکتوں پر نادم ہوئے اور کہا کہ ہم موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لے آئے ۔ حضرت موسی نے پھر اپنی قوم کی نجات کے لئے دعا کی تو عذاب ٹل گیا تو اس پر کہنے لگے کہ مصیبتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، پھر اللہ کا قہر نازل ہوا ٹڈی دل آسمان پر چھا گئے کھڑی فصل تباہ ہو گئی ملک میں قحط پیدا ہو گیا جسم میں جوئیں پیدا ہوئیں، جگہ بہ جگہ مینڈک نظر آنے لگے یہاں تک کہ جینا دو بھر ہو گیا اللہ نے حضرت موسی پر وحی بھیجی کہ اس سرزمین کو چھوڑ دو اور اپنی قوم بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر نکل پڑو۔ اللہ کے حکم کے مطابق حضرت موسیٰ اپنی قوم کے ساتھ نکلنے کی تیاریاں کرنے لگے۔ اسی دوران مصر میں وہا پھوٹ پڑی قبطی بڑی تعداد میں مرنے لگے ہر گھر سے نعش نکلتی تھی۔ اس دوران بنی اسرائیل مصر سے جانے لگے ان کے ملک سے نکلنے پر کسی نے توجہ نہیں دی اس لئے کہ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم تھا حضرت موسیٰ نے حضرت ہارون کی رہنمائی میں بنی اسرائیل کو روانہ کر دیا اور خود پیچھے رہ گئے بنی اسرائیل کا قافلہ دریائے قلزم کے کنارے پہنچ گیا

فرعون کے کارندوں نے دیکھا کہ شہر میں کوئی اسرائیلی نظر نہیں آرہا تو فرعون کو اطلاع دی، فرعون اپنے لشکر کے ہمراہ اسرائیلیوں کے تعاقب میں روانہ ہوا فرعون کا بھاری لشکر دیکھ کر موسیٰ کی قوم گھبرا گئی۔ موسیٰ کی قوم نے کہا کہ ہم مصر سے نہ نکلتے تو اچھا تھا اب تو ہم گھر گئے ہیں۔ حضرت موسیٰ نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ میرے ساتھیوں خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں میرا رب میرے ساتھ ہے وہی ہمیں راہ دکھائے گا اسی وقت آواز آتی ہے کہ اے موسیٰ اپنا عصا دریا پر مارو حضرت موسیٰ نے اپنا عصا دریا میں مارا تو دریا کا پانی دو طرف ہو گیا اور درمیان سے راستہ بن گیا ۔

حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو ہدایت کی کہ میں اس راستہ سے دریا پار کرتا ہوں تم سب میرے پیچھے پیچھے آؤ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ روانہ ہوئے اور پیچھے پیچھے ان کی قوم تھی بنی اسرائیل نے دریا عبور کیا فرعون کا لشکر بھی پہنچ چکا تھا جب فرعون نے موسیٰ اور ان کی قوم کو راستہ پار کرتے دیکھا تو خود بھی اپنے لشکر کے ساتھ دریا پار کرنے کی کوشش کی اور جب فرعون اور اس کا لشکر بیچ میں پہنچا تو دونوں طرف کا پانی مل گیا فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ڈوبنے لگا تو موسیٰ کو آواز دی کہ اے موسیٰ مجھے بچالے میں ڈوب رہا ہوں ، میں ایمان لاتا ہوں۔ حضرت موسیٰ نے اس کی آواز پر توجہ نہ دی اور وہ اپنے لشکر سمیت ڈوب گیا۔

man-o-salwa-chalo-masjid-com

حضرت موسیٰ اپنی قوم کو لے کر نئی سرزمین پر پہنچے نئی جگہ تھی اسرائیلی قوم کے لئے نئی نئی مشکلات اور پریشانیاں پیدا ہو گئیں ۔ کھانے پینے کا کوئی سامان میسر نہیں تھا، زمین بنجر تھی پانی بھی نہیں تھا اس لئے کوئی درخت پودا پیدا نہیں ہوتا تھا اسرئیلیوں نے حضرت موسیٰ سے فریاد کی کہ ہم کیسی جگہ آگئے ہیں اور کیسی مشکل میں پھنس گئے ہیں یہاں تو زندگی دوبھر ہو گئی ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ مصر کی سرزمین نہیں چھوڑتے۔ اپنی قوم کی باتوں سے حضرت موسیٰ بھی پریشان ہو گئے، یہاں نہ پانی ہے نہ سبزہ پھر آپ نے پانی کے لئے زمین پر عصا مارا تو بارہ چشمے پھوٹ پڑے یہ چشمے اسرائیلیوں کے بارہ قبیلے تھے آپس میں بانٹ لئے اسرائیلیوں نے پھر حضرت موسیٰ سے مطالبہ کیا کہ ہمارے کھانے کے لئے سامان فراہم کرو۔ حضرت موسیٰ نے اللہ سے دعا کی تو آسمان سے من و سلوی اتر نے لگا۔

علماء نے وضاحت کی ہے کہ ایک قسم کے پرندے کو کہتے ہیں ۔ اسرائیلی اس کا گوشت کھایا کرتے تھے کسی نے اس کی تشریح اس طرح کی کہ جب اسرائیلی صحرائے سینا میں تھے تو کوئی سایہ بھی نہیں تھا تو اللہ نے ان کے لئے بادل کے ذریعہ سایہ پیدا کیا جب رات ہوتی یہی بادل آگ کا ستون بن کر روشنی اور گرمی پیدا کرتا۔

کھانے کے لئے ایک خاص قسم کی خوراک ”من“ بھی بھیجا اس کے باوجود اسرائیلیوں کو تشفی نہ ہوئی اسرائیلیوں نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ یہ تو ایک ہی قسم کا کھانا ہے ہم اسے کھاتے ہوئے اکتا گئے ہیں۔ اے موسیٰ اپنے رب سے دعا کرو کہ ہمارے لئے زمین سے کھیرا ککڑی پیاز لہسن اور مسور پیدا کرے حضرت موسیٰ نے خفا ہو کر فرمایا کہ یہ چیزیں تو شہر ہی میں مل سکتی ہیں، جسے ان سب چیزوں کی ضرورت ہو وہ شہر چلا جائے ۔ آپ نے پھر فرمایا کہ یہ مصیبتیں تو جلد ہی ٹل جائیں گی ہم بہت جلد مصرلوٹ جائیں گے حضرت موسیٰ کی قوم نے کہا کہ وہاں تو فرعون کی حکمرانی ہے اور وہ ہمارے خلاف ہے، ہم وہاں کسی طرح جائیں اس پر حضرت موسیٰ نے کہا کہ فرعون غرق ہو چکا ہے اب وہ اس دنیا میں نہیں رہا اس لئے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔ حضرت موسیٰ کی باتوں سے قوم کو اطمینان نہیں ہوا اور کہا کہ اگر فرعون مر چکا ہے تو ہم اس کی نعش دیکھنا چاہتے ہیں۔ حضرت موسی نے اللہ سے دعا کی تو پانی نے فرعون کی نعش کو اوپر اچھال دیا نعش کنارے پر آ لگی جب سب نے دیکھا تو یقین آیا۔