You are currently viewing رسول اللہ نے صحا بہ اکرا م کو خطبہ دیا

رسول اللہ نے صحا بہ اکرا م کو خطبہ دیا

ذفران کی وادی سے روانہ ہوکر آپ  بدر کے مقام پر پہنچے۔اس وقت تک قریشی لشکر بھی بدر کے قریب پہنچ چکا تھا۔آپ  نے حضرت علی کو قریش کے لشکر کی خبریں معلوم کرنے کے لیے بھیجا۔انہیں دو ماشکی( پانی بھرنے والے)ملے  وہ قریشی لشکر کے ماشکی تھے۔ان دونوں سے لشکر کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوئیں.  انہوں نے لشکر میں شامل بڑے بڑے سرداروں کے نام بھی بتادیئے  اس پر حضور نبی کریم  نے اپنے صحابہ سے فرمایا “مکہ نے اپنا دل اور جگر نکال کر تمہارے مقابلے کے لیے بھیجے ہیں۔” یعنی اپنے تمام معزز اور بڑے بڑے لوگ بھیج دیئے ہیں۔ اس دوران ابوسفیان قافلے کا راستہ بدل چکے تھے اور اس طرح ان کا قافلہ بچ گیا اس کہ اس قافلے کو بچانے کے لیے جو لشکر آیا تھا،اس سے اسلامی لشکر کا آمنا سامنا ہوگیا۔ادھر ابوسفیان نے جب دیکھا کہ قافلہ تو اب بچ گیا ہے،اس لیے انہوں نے ابوجہل کو پیغام بھیجا کہ واپس مکہ کی طرف لوٹ چلو.  کیونکہ ہم اسلامی لشکر سے بچ کر نکل آئے ہیں لیکن ابوجہل نے واپس جانے سے انکار کردیا۔ قریشی لشکر نے بدر کے مقام پر اس جگہ پڑاؤ ڈالا،جس جگہ پانی نزدیک تھا۔دوسری طرف اسلامی لشکر نے جس جگہ ہٹاؤ ڈالا،پانی وہاں سے فاصلے پر تھا۔اس سے مسلمانوں کو پریشانی ہوئی۔تب اللہ تعالیٰ نے وہاں بارش برسادی اور ان کی پانی کی تکلیف رفع ہوگئی۔جب کہ اسی بارش کی وجہ سے کافر پریشان ہوئے۔وہ اپنے پڑاؤ سے نکلنے کے قابل نہ رہے.  مطلب یہ کہ بارش مسلمانوں کے لیے رحمت اور کافروں کے لیے زحمت ثابت ہوئی۔ صبح ہوئی تو اللہ کے رسول  نے اعلان فرمایا: “لوگو! نماز کے لیے تیار ہوجاؤ۔”

چنانچہ صبح کی نماز ادا کی گئی  پھر جب آپ  نے صحابہ کرام کو خطبہ دیا،آپ  نے ارشاد فرمایا: “میں تمہیں ایسی بات کے لیے ابھارتا ہوں،جس کے لیے تمہیں اللہ نے ابھارا ہے تنگی اور سختی کے موقعوں پر صبر کرنے سے اللہ تعالیٰ تمام تکالیف سے بچالیتا ہے اور تمام غموں سے نجات عطا فرماتا ہے۔” اب آپ  لشکر کو لے کر آگے بڑھے  اور قریش سے پہلے پانی کے قریب پہنچ گئے۔مقام بدر پر پانی کا چشمہ تھا۔آپ  کو وہاں رکتے دیکھ کر حضرت خباب نے عرض کیا:

“اے اللہ کے رسول!قیام کے لیے یہ جگہ مناسب نہیں ہے، میں اس علاقے سے اچھی طرح واقف ہوں  آپ وہاں پڑاؤ ڈالیں جو دشمن کے پانی سے قریب ترین ہو۔ہم وہاں ایک حوض بناکر پانی اس میں جمع کرلیں گے۔اس طرح ہمارے پاس پینے کا پانی ہوگا  ہم پانی کے دوسرے گڑھے اور چشمے پاٹ دیں گے،اس طرح دشمن کو پانی نہیں ملے گا۔”

muhammad-s-a-w-chalo-masjjid-com

آپ  نے ان کی رائے کو بہت پسند فرمایا  ایک روایت کے مطابق اسی وقت حضرت جبرئیل  اللہ تعالیٰ کا پیغام لائے اور بتایا کہ حضرت خباب کی رائے بہت عمدہ ہے۔ اس رائے کے بعد آپ  لشکر کو لے کر آگے بڑھے اور اس چشمے پر آگئے جو اس جگہ سے قریب ترین تھا جہاں قریش نے پڑاؤ ڈالا تھا۔مسلمانوں نے یہاں قیام کیا اور آپ  نے انہیں دوسرے گڑھے بھرنے کا حکم دیا۔ پھر نبی کریم نے اس کچے کنویں پر ایک حوض بنوایا، جہاں اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا تھا۔ آپ نے اس میں پانی بھروادیا اور ڈول ڈال دیئے۔ اس طرح حضرت خباب کے مشورے پر عمل ہوا۔ اس کے بعد سے حضرت خباب کو ذی رائے کہا جانے لگا تھا۔ اس موقع پر حضرت سعد بن معاذ نے آپ سے عرض کیا: “اے اللہ کے رسول! کیوں نہ ہم آپ کے لیے ایک عریش بنادیں؟” (عریش کھجور کی شاخوں اور پتوں کا ایک سائبان ہوتا ہے) آپ اس میں تشریف رکھیں۔ اس کے پاس آپ کی سواریاں تیار رہیں، اور ہم دشمن سے جاکر مقابلہ کریں۔” نبی اکرم نے ان کا مشورہ قبول فرمایا۔ چنانچہ آپ کے لیے سائبان بنایا گیا۔ یہ ایک اونچے ٹیلے پر بنایا گیا تھا۔ اس جگہ سے آپ پورے میدان جنگ کا معائنہ فرما سکتے تھے۔ حضور اکرم نے وہیں قیام فرمایا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا: “آپ کے ساتھ یہاں کون رہے گا تاکہ مشرکوں میں سے کوئی آپ کے قریب نہ آسکے؟” حضرت علی کہتے ہیں: “اللہ کی قسم! یہ سن کر ہم میں سے ابوبکر صدیق آگے بڑھے اور اپنی تلوار کا سایہ آپ کے سر پر کرتے ہوئے بولے: “جو شخص بھی آپ کی طرف بڑھنے کی جرات کرے گا، اسے پہلے اس تلوار سے نمٹنا پڑے گا۔” حضرت ابوبکر صدیق کے ان جرات مندانہ الفاظ کی بنیاد پر حضور نے انہیں سب سے بہادر شخص قرار دیا۔ یہ بات جنگ شروع ہونے سے پہلے کی ہے۔ جب جنگ شروع ہوئی تو خود حضرت علی بھی اس سائبان کے دروازے پر کھڑے تھے۔ اور حضرت سعد بن معاذ بھی انصاری صحابہ کے ایک دستے کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ اور حضرت ابوبکر صدیق اندر آپ کی حفاظت پر مامور تھے۔ اس طرح صبح ہوئی، پھر قریشی لشکر ریت کے ٹیلے کے پیچھے سے نمودار ہوا۔ اس سے پہلے حضور اکرم نے کچھ مشرکوں کے نام لے لے کر فرمایا کہ فلاں اس جگہ قتل ہوگا، فلاں اس جگہ قتل ہوگا۔ حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ جن لوگوں کے نام لے کر حضور اکرم نے فرمایا تھا کہ اس جگہ قتل ہوگا، وہ بالکل وہیں قتل ہوئے، ایک انچ بھی ادھر ادھر نہیں پائے گئے۔ حضور نبی کریم نے جب دیکھا کہ قریش کا لشکر لوہے کا لباس پہنے ہوئے اور ہتھیاروں سے خوب لیس بڑھا چلا آرہا ہے تو اللہ رب العزت سے یوں دعا فرمائی: “اے اللہ! یہ قریش کے لوگ، یہ تیرے دشمن اپنے تمام بہادروں کے ساتھ بڑے غرور کے عالم میں تجھ سے جنگ کرنے اور تیرے رسول کو جھٹلانے کے لئے آئے ہیں، اے اللہ! آپ نے مجھ سے اپنی مدد اور نصرت کا وعدہ فرمایا ہے، لہذا وہ مدد بھیج دے۔” غرض جب قریشی لشکر ٹھر گیا تو انہوں نے عمیر بن وہب جہمی  کو جاسوسی کے لیے بھیجا۔ یہ عمیر بن وہب بعد میں مسلمان ہوگئے تھے اور بہت اچھے مسلمان ثابت ہوئے تھے۔ آپ  کے ساتھ غزوہ احد میں شریک ہوئے۔ قریش نے عمیر  سے کہا: “جاکر محمد کے لشکر کی تعداد معلوم کرو اور ہمیں خبر دو۔”