دورحکو مت حضرت داود
حضرت سلیمان اللہ پر یقین کامل رکھتے تھے اور ہر معاملہ میں اللہ پر بھروسہ کرتے تھے۔ آپ ہمیشہ اللہ کا کرشمہ اور اس کی کارسازی دیکھنے کی خواہش رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ حضرت داؤد کے دور حکومت میں ایک بڑھیا کے ہاں دو مسافر آئے اور کہنے لگے کہ ہمیں بھوک لگی ہے اگر تمہارے پاس کھاتا ہے تو دے دو، تا کہ ہم کھا کر اپنی بھوک مٹائیں ۔ ہم کھانے کا معاوضہ ادا کریں گے۔ بڑھیا بڑی غریب تھی وہ بولی میرے پاس تھوڑی سی گندم ہے میں پسوا کر لاتی ہوں تم کچھ دیر انتظار کرو، کچھ دیر بعد بڑھیا جب آنا لا رہی تھی تو راستہ میں زور دار ہوا چلنی شروع ہوئی آٹا ہوا لے اڑی بڑھیا کے ہاتھ خالی ہو گئے بڑھیا نے رونا شروع کیا ، اتفاق کی بات ہے کہ راستہ میں حضرت سلیمان مل گئے ۔ آپ اس زمانہ میں کم سن تھے آپ نے رونے کا سبب دریافت فرمایا تو وہ بولی کہ میں گندم پسوا کر آٹا لا رہی تھی کہ اچانک ہوا چل پڑی آٹا اڑ گیا۔ آپ نے فرمایا اس میں رونے کی کیا بات ہے میرا باپ بادشاہ ہے جا اس سے فریاد کر۔ بڑھیا حضرت داؤد کے پاس فریاد لے کر گئی، حضرت داؤد نے فرمایا میں کیا کر سکتا ہوں اللہ کے حکم سے چلتی ہے اگر کوئی انسان ظلم کرتا تو میں انصاف کرتا ہوا کے ساتھ کس طرح معاملہ کروں پھر اپنے ایک خادم سے کہا کہ دو بوری اناج بڑھیا کے حوالے کرو ۔ بڑھیا اناج لے کر واپس جارہی تھی تو راستہ میں پھر سلیمان سے ملاقات ہوگئی۔ آپ نے بڑھیا سے دریافت کیا اس نے بتایا کہ بادشاہ نے دو بوری اناج دیا ہے وہ میں لئے جارہی ہوں۔ حضرت سلیمان نے اس سے کہا کہ بادشاہ کے پاس دوبارہ واپس جا اور گزارش کر کہ مجھے وہی آٹا چاہئے جو ہوا اڑا کر لے گئی ہے بڑھیا نے حضرت سلیمان کے کہنے پر عمل کیا بادشاہ کے پاس گئی اور وہی بات کہی جو حضرت سلیمان نے بتائی تھی۔ بادشاہ بڑھیا کی بات سن کر پریشان ہو گیا اور سوچنے لگا کہ میں ہوا سے یہ بات کسی طرح کہوں پھر بادشاہ نے بڑھیا سے دریافت فرمایا کس کے کہنے پر اس طرح کی بات کی ہے بڑھیا نے جواب دیا کہ راستے میں ایک کم سن لڑکا ملا تھا اسے تمام ماجرا سنایا تو اس نے مجھے سکھا کر بھیجا ہے حضرت داؤد سمجھ گئے کہ سوائے سلیمان کے دوسرا کوئی اس طرح کی بات نہیں کر سکتا۔ آپ نے سلیمان کو دربار میں بلا کر دریافت فرمایا کہ میں کس طرح ہوا سے آٹا لے کر دوں یہ بات تو میرے لئے ناممکن ہے۔ سلیمان نے بادشاہ سے کہا کہ آپ پیغمبر ہیں اور بادشاہ بھی، آپ دعا کریں تو وہی آٹا واپس آسکتا ہے ۔ آپ نے دعا کی اللہ نے آپ کی دعا سن لی اللہ نے ہوا کو انسانی شکل میں آپ کے پاس بھیجا، حضرت داؤد نے ہوا سے دریافت کیا کہ اس بڑھیا کا آٹا کیوں اڑا کر لے گئی ہوا نے جواب دیا کہ اللہ کا یہی حکم تھا۔ پھر حضرت داؤد نے ہوا سے پوچھا کہ اس بارے میں جو معلوم ہے ہمیں بتاؤ، ہوا نے پورا واقعہ سناتے ہوئے کہا۔ سمندر میں ایک کشتی آرہی ہے اس میں کچھ تاجر بیٹھے ہوئے ہیں کشتی میں ایک سوراخ ہو گیا جس سے کشتی کے ڈوب جانے کا اندیشہ پیدا ہو گیا۔ کشتی میں بیٹھے ہوئے تاجروں نے خدا سے منت مانی کہ اے خدا اگر کشتی ڈوبنے سے بچ گئی تو ہم اس کا آدھا حصہ داؤ د بادشاہ کے دربار میں پیش کریں گے تا کہ وہ غریبوں میں تقسیم کریں ۔ ان کی دعا قبول ہوئی، ہوا نے بتایا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ اس بڑھیا کا آٹا اڑا کر کشتی کا سوراخ بند کردوں میں نے ایسا ہی کیا ، یہ گفتگو جاری تھی کہ اسی دوران وہ تاجر بھی نفع کا مال لے کر دربار میں حاضر ہوئے اور آدھا مال غریبوں میں تقسیم کرنے کے لئے پیش کر دیا۔ حضرت داؤد نے مال کے دو حصے کئے ایک حصہ بڑھیا کو دیا اور سلیمان کو شاباشی دی ، کیوں کہ ان کی کوششوں سے خدا کی مصلحت کا راز معلوم ہوا۔