You are currently viewing حضرت صالح کی قوم ثمود اور اونٹںی کا واقعہ

حضرت صالح کی قوم ثمود اور اونٹںی کا واقعہ

قوم ثمود ہجر کی بستی میں آباد تھی جو گناہوں میں مبتلا تھے اور آپس میں ایک دوسرے پر ظلم کرتے قوم ثمود کا خاص پیشہ بھیڑ بکریوں کی پرورش اور تجارت تھی قوم ثمود دولت سے مالا مال تھی اور جسمانی طور پر قوی بھی تھی تاہم اخلاقی حالت اچھی نہ تھی  ذرا ذرا سی بات پر لڑ مرنے کے لئے تیار رہتے تھے بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے  کمزوروں کا مال ہضم کرتے  کمزوروں پر ظلم ڈھاتے  بتوں کی پوجا کرتے اس قوم کو راہ راست پر لانے کے لئے اللہ نے حضرت صالح  کو نبی بنا کر بھیجا۔حضرت صالح  ان سے کہا کرتے کہ اے قوم! اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو  اس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اللہ نے مجھے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تاکہ تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈراؤں لوگ ان سے کہتے: ہمارے پاس دولت  قوت اور عزت ہے اگر اللہ کو نبی بنانا منظور ہوتا تو ہم جیسوں کو نبی بناتا اگر اللہ ہم سے ناراض ہوتا تو ہمارے کھیتوں کو اجاڑ دیتا  ہمیں عالی شان مکانات نہ دیتا  ہمارے پاس بے شمار اونٹ بکریاں ہیں  سواری کے لئے گھوڑے ہیں  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارے بت ہم سے بہت خوش ہیں اسی لئے ہم ان کی پرستش کرتے ہیں ہم یہ بات برداشت نہیں کر سکتے کہ تم ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہو اور ہمیں ان کی پرستش سے نہ روکو ہم خوش حال ہیں لیکن تمہاری بات ماننے والے مفلس اور غریب ہیں  تمہاری حالت بھی ایسی ہی ہے اگر تم نبی ہو تو اس کی دلیل پیش کرو  کوئی معجزہ دکھاؤ  ہم دیکھنا چاہتے ہیں حضرت صالح  ان سے کہتے کہ تم ہی بتاؤ تم کیا معجزہ دیکھنا چاہتے ہو پھر کافر آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ ان سے کس قسم کا معجزہ طلب کرنا چاہئے پھر سب نے اتفاق رائے سے کہا کہ تم ان پتھروں سے ایک اونٹنی پیدا کرو  اور اونٹنی بھی ایسی ہو کہ وہ ساتھ ساتھ بچہ بھی دے اور ہم اس کا دودھ بھی پئیں حضرت صالح  نے اللہ سے دعا کی  جلد ہی دعا قبول ہوئی پتھروں کے اندر سے ایک اونٹنی نمودار ہوئی اونٹنی بہت خوبصورت تھی  اونٹنی کے ظاہر ہونے کے بعد ہی اس جگہ گھاس اُگ آئی اور ایک پانی کا چشمہ بھی جاری ہو گیا اونٹنی نے گھاس کھائی  چشمے سے پانی پیا  اسی ساعت کے اندر بچہ بھی جنا  اور اونٹنی دودھ دینے لگی

کافروں نے جو معجزہ طلب کیا تھا  سب پورا ہوا۔ پھر حضرت صالح  نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ جو چاہتے تھے اللہ نے پورا کر دکھایا  کیا تم اب بھی اپنی ضد پر اڑے رہو گے؟ کافروں نے کہا کہ ہم ایمان نہیں لائیں گے  نہ آپ کی باتوں پر عمل کریں گے کافر اونٹنی کو تنگ کرنے لگے  اونٹنی جب پیاس سے تڑپتی اور کنوئیں کے پاس جاتی تو اسے پانی پینے نہیں دیتے  بعد میں اونٹنی کو مارنے لگے  اس کا چلنا پھرنا دو بھر کر دیا تھا  وہ اذیت کے مارے کراہتی رہتی  لیکن کافروں کو رحم نہیں آتا۔

حضرت صالح  ان سے کہتے کہ اونٹنی کو اذیت نہ پہنچاؤ  اسے چرنے دو  جہاں جانا چاہتی ہے جانے دو  وہ اگر پانی پینا چاہے تو اسے پیاسا نہ رکھو  ایک دن اونٹنی چشمے سے پانی پیئے گی  دوسرے روز تم اور تمہارے جانور پئیں گے  اس کے روزانہ کے معمول میں کوئی فرق نہ آنے دو تم اللہ سے ڈرو اور اس کی عبادت کرو تم جو کچھ کھاتے پیتے ہو وہ سب کچھ اللہ ہی دیتا ہے یہ سب کچھ اسی کا کرم ہے  تمہارے بت تمہارے کوئی کام نہیں آتےقوم ثمود باز نہ آئی اور نہ حضرت صالح  کی باتوں پر عمل کیا ایک روز اچانک حضرت صالح  کی اونٹنی کو قتل کر دیا قتل کی خبر جب آپ کو ملی تو آپ صدمہ سے نڈھال ہو گئے  آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔اللہ کے نبی  حضرت صالح کا یہ فرمان تھا کہ ’’اے میری قوم! تمہارے پاس عیش و عشرت کے لیے صرف تین دن بچے ہیں اس کے بعد تم پر سخت ترین عذاب آجائے گا۔‘‘ (سورئہ ہود  آیت65) قوم کی اکثریت نے اپنے نبی ؑ کی اس بات کو بھی ماضی کی طرح ہنسی مذاق اور طنزو استہزاء میں اُڑا دیا تاہم  اُن میں سے کچھ ایسے ضرور تھے  جو اپنے نبی ؑکی پیش گوئی سُن کر بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہوگئے تھے  مگر اُن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی  رات بھر کی موج مستی سے تھکے ہارے لوگ اپنے اپنے گھرجانے کو تھے کہ اچانک انھیں ایک بڑے زور کی چنگھاڑ کی صورت میں عذاب نے آپکڑا (سورہ ہود 67)

اس زور دار سخت ترین چیخ نے اُن سب کے کانوں کے پردے پھاڑ دیے اور اُن کے دل پارہ پارہ ہوگئے ابھی چنگھاڑ کا عذاب ختم بھی نہ ہونے پایا تھا کہ ’’ایک شدید ترین زلزلے نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے (سورۃ الاعراف  آیت 78) اور قومِ ثمود کو اللہ نے یوں نیست و نابود کردیا کہ گویا وہاں وہ کبھی آباد ہی نہ تھے (سورہ ہود آیت68) یوں اللہ تعالیٰ نے نافرمان اور متکبّر قومِ ثمود کو ہمیشہ کے لیے عبرت کا نشان بناکر رہتی دنیا تک کے مغرور  بداعمال اور نافرمان لوگوں کو متنبہ فرما دیا کہ نہ صرف آخرت بلکہ دنیا میں بھی تمہارے لیے سخت ترین عذاب موجود ہے۔

ثمود کی بستی اور حضورؐ کا حکم: حضرت ابنِ عمرؓ اور حضرت ابوذرؓ سے مروی ہے کہ غزوئہ تبوک کے لیے جاتے ہوئے رسول اللہ نے حجر (قومِ ثمود کی بستی) میں پڑائو کیا  تو صحابہؓ نے وہاں کے کنوئوں کا پانی اپنے برتنوں میں بھرلیا اور اسی سے آٹا بھی گوندھ لیا  لیکن حضور نے انہیں حکم دیا کہ اپنے برتنوں میں بھرنے والا پانی انڈیل دیں اور گوندھا ہوا آٹا جانوروں کو کھلا دیں پھر آپؐ نے فرمایا کہ اس کنویں سے پانی لیں  جس سے حضرت صالح کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی (صحیح بخاری 3378-3379