You are currently viewing حضرت خضر اور آب حیا ت کی تلاش

حضرت خضر اور آب حیا ت کی تلاش

روایت کے مطابق حضرت خضر  کا نام بلیا بن ملکان اور کنیت ابو العباس تحریر کی ہے۔ ایک قول ہے کہ آپ بنی اسرائیل میں سے ہیں ایک قول ہے کہ آپ شاہزادے ہیں آپ نے دنیا ترک کر کے زہد اختیار فرمایا۔ آپ ولی تو بالیقین ہیں آپ کی نبوت میں اختلاف ہے۔ آپ کے لقب خضر کی وجہ احادیث میں یہ بیان کی جاتی ہے کہ آپ جہاں بیٹھتے یا نماز پڑھتے ہیں وہاں اگر گھاس خشک ہو تو سر سبز ہو جاتی ہے آپ کا زمانہ ذوالقرنین بادشاہ کا زمانہ ہے۔

ذوالقرنین نے جن کا ذکر قرآن مجید کی سورہ کہف میں ہے ذو القرنین کا نام سکندر ہے۔ یہ حضرت خضر  کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ انہوں نے اسکندریہ آباد کیا اور اسکا نام اپنے نام پر رکھا حضرت خضر ان کے وزیر تھے۔ دنیا میں ایسے چار بادشاہ ہوئے ہیں جو تمام دنیا پر حکمران تھے۔ ان میں دو مومن تھے، ایک حضرت ذوالقرنین اور دوسرے حضرت سلیمان دو کافر تھے، ایک نمرود اور ایک بخت نصر اور ایک پانچویں بادشاہ اس امت سے ہونے والے ہیں جن کا اسم مبارک حضرت امام مہدی ہے ان کی حکومت تمام روئے زمین پر ہوگی۔ ذوالقرنین کی نبوت میں اختلاف ہے۔ حضرت علی نے فرمایا کہ وہ نبی نہ تھے، نہ فرشتے تھے، بلکہ اللہ سے محبت کرنے والے بندے تھے اللہ نے انہیں محبوب بنالیا تھا، انسان کو جس چیز کی حاجت وضرورت ہوتی ہے اور جو کچھ بادشاہوں کو ممالک فتح کرنے اور سلطنت کو وسیع کرنے اور پھیلانے میں چاہئے ہوتا ہے وہ سب کچھ اللہ رب العزت نے انہیں عطا کیا تھا

ذوالقرنین نے کتابوں میں دیکھا تھا کہ اولاد سام میں سے ایک شخص چشمہ حیات سے پانی پیے گا اور اس کو موت نہ آئے گی۔ یہ دیکھ کر وہ چشمہ حیات کی تلاش میں مغرب کی طرف روانہ ہوئے اور آپ کے ساتھ حضرت خضر بھی تھے، وہ تو چشمہ حیات تک پہنچ گئے اور انہوں نے پانی پی بھی لیا مگر ذوالقرنین کے مقدر میں نہ تھا۔ انہوں نے نہ پیا۔ اس سفر میں جانب مغرب روانہ ہوئے تو جہاں تک آبادی ہے وہ سارا فاصلہ طے کر لیا اور وہاں پہنچے جہاں آبادی کا نام ونشان بھی نہ تھا۔ وہاں انہیں سورج غروب کے وقت ایسا نظر آیا گویا کہ وہ سیاہ چشمے میں ڈوبتا ہے جیسا کہ سمندر میں سفر کرنے والوں کو ڈوبتا نظر آتا ہے۔ قصص الانبیاء میں یہ واقعہ اس طرح لکھا ہے:۔ ذوالقرنین نے علماء اور حکماء سے پوچھا کہ تم نے کسی کتاب میں دیکھا ہے کہ کوئی ایسا نسخہ جس کے استعمال سے عمر اتنی طویل ہو جائے کہ آدمی تصور بھی نہ کر سکے یا ایسا نسخہ جس کے استعمال سے آدمی کو موت نہ آئے ان میں سے ایک حکیم نے عرض کیا کہ حضور میں نے ایک قدیم کتاب وصیت نامہ آدم میں لکھا دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک چشمہ آب حیات کوہ قاف میں پیدا کیا ہے۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور برف سے زیادہ ٹھنڈا اور شہد سے زیادہ میٹھا مکھن سے نرم اور مشک سے زیادہ خوشبودار ہےجو اسکو پئے گا اس کو موت نہ آئے گی اور قیامت تک زندہ رہے گا۔

اس پانی کا نام آب حیات ہے یہ سن کر ذوالقرنین کے شوق میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے علماء سے کہا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں اور پوچھا ذرا یہ تو بتائیں کہ سواری کیلئے سب سے اچھا چست و چالاک جانور کون سا ہوتا ہے۔ وہ بولے ایسی اچھی نسل کی گھوڑی جس نے بچہ نہ جنا ہو۔ چنانچہ ذوالقرنین نے ایک ہزار گھوڑیاں منگوا ئیں اور حضرت خضر کو سب سے آگے کیا یعنی رہبر بنایا۔ پھر علما و حکما سے پوچھا کہ وہ وہاں پہنچنے کے بعد اگر اس جگہ جیسا کہ علماء نے بتایا تھا اندھیرا ہوا تو کیا کریں گے۔ حکماء اور علماء نےکہا کہ ایسا کریں کہ شاہی خزانے سے لعل و گوہر لے لیں اگر اندھیرا ہوا تواس کی روشنی میں آگے بڑھیں گے۔ غرض ایک قیمتی لعل جو اندھیرے میں روشن ہوجاتا تھا لیا گیا اور حضرت خضر کے حوالے کیا۔ تخت و تاج اور سلطنت ملازموں میں سے ایک عقلمند اور دانا ملازم کو سپرد کر کے بارہ سال کے وعدے پر اس سے رخصت ہوئے۔ جب کوہ قاف پہنچے راستہ بھول کر اس جگہ ایک سال تک پریشان و سرگرداں رہے اور اس اثناء میں حضرت خضر لشکر سے جدا ہو کر اندھیرے علاقے میں جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ سکتی تھی بھٹک گئے۔ پھر خیال آیا تو اس لعل کو جیب سے نکال کر زمین پر رکھ دیا اس کی روشنی سے اندھیرا دور ہوگیا اور اللہ کی کرم نوازی سے چشمہ، آب حیات کا ان کو نظر آیا۔ حضرت خضر نے وضو کر کے آب حیات پی لیا اور خدا کا شکر بجالائے۔ چنانچہ حضرت خضر کی عمر دراز ہوئی پھر وہاں سے نکل کر آئے تو ایک اور اندھیری جگہ پہنچ گئے تو دوبارہ اس لعل کو نکال کر زمین پر رکھا جس سے اندھیرا دور ہو گیا جو لشکر کے لوگ اندھیرے میں تھے تمام حضرت خضر کے پاس جمع ہو گئے اس سفر میں نا کامی کے بعد ذوالقرنین نے تمام لشکر کو اپنے پاس سے رخصت کیا۔ ذوالقرنین وہیں رہ گئے اور عبادت میں مشغول ہو گئے ۔ چند دنوں کے بعد انتقال کیا اور وہیں مدفون ہوئے۔

اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت خضر کو ہمیشہ کی زندگی عطا ہوگئی تھی وہ اسکے بعد ہمیشہ زندہ رہیں گے یعنی قیامت تک۔ لیکن تاریخ یا احادیث میں ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا۔ جس سے یہ ثابت ہو کہ آپ کے ساتھ ذوالقرنین کے بعد سے حضرت موسیٰ کے واقعے تک (جس کا ذکر قرآن مجید میں ہے) کیا بیتی یا آپ کیا کرتے رہے۔ جیسا کہ مشہور ہے کہ آپ بھٹکے ہوئے لوگوں کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور پریشان حالوں کی مدد کرتے ہیں۔ البتہ حضرت موسی کو ثبوت عطا ہوئے اور فرعون کے غرق ہونے کے بعد حضرت خضر کا حضرت موسی کوتعلیم دینے کے لئے حکم خداوندی ہونے کا واقعہ قرآن مجید میں تفصیل سے مذکور ہے۔ جس کی تشریح رسول اللہ نے احادیث مبارکہ میں بڑی تفصیل سے بیان کی ہے۔

قصص الانبیاء اور تفسیر خزائن العرفان اور بخاری شریف مسلم شریف میں مختصر و مفصل کئی جگہ واقعہ موجود ہے۔