اس جگہ پر مو جو د قبر وں کو اکھا ڑ دیا گیا ۔ کھدا ئی کر کےوہا ں نر م ریت ڈال دی ۔ کھجو روں کے تنوں کے ستون بنا ئےاور ان پر کھجو ر کی شا خوںاورپتوں سے چھت بنا دی گئی ۔
اس کمر ے کو مسجدکا نا م دیا گیا اور یہا ں نما زیں پڑ ھنی شروع کر دیں ۔
یہ مد ینہ میں پہلی مسجد تھی ۔ آپ ﷺ کو اس مسجد سے بڑا پیا ر تھا ۔ آپ ﷺ یہیں سا ری نماز یں پڑ ھتے تھے اس لئے اسے مسجد نبو ی ﷺ کہا جا نے لگا ۔ آپ ﷺ نے فر ما یا :
میری اس مسجد میں نماز ، مسجد الحرام کے سوا تما م مسجدوں میں نما ز سے ایک ہزار درجہ زیا دہ افضل ہے ۔
آپ ﷺ اس مسجد کے ساتھ ہی ایک اونچی جگہ پر بچو ں اور بڑو ں کو قرآن پا ک پڑ ھا تے تھے ۔ طا لب علم وہیں سو تے ، وہیں کھا تے پیتے بھی تھےلہذا یہ صر ف مسجد ہی نہیں تھی بلکہ یہ سکو ل ، کا لج ، یو نیو ڑسٹی ، ہو ٹل ، اور میس وغیرہ بھی تھی ۔
کو ئی لڑا ئی ہو تی تو مسجد میں بیٹھ کر فیصلہ کر تے لہذا یہ عدا لت بھی تھی ۔
کو ئی مہما ن آتا تو اسے مسجد میں ٹہراتے لہذا یہ مہما ن خا نا بھی تھا ۔
کو ئی مشورہ کر نا ہو تا تو مسجد میں ہی کر تے لہذا اسے میٹنگ ہا ل بھی کہا جا تا ۔
جہا د کے لئے میٹنگ بھی مسجد میں کر تے لہذا یہ ملڑ ی ہیڈ کوا ٹر بھی تھا ۔
جو لو گ اللہ کی راہ میں کچھ دینا چا ہتے وہ بھی اسے مسجد میں رکھ جا تے لہذا یہ ولفیر آفس یعنی فلا ح و بیبو د کا مر کز بھی تھا ۔
اللہ پا ک ہمیں بھی تو فیق عطا فر ما ئے کہ ہم بھی ایسی مسجدیں بنا ئیں جہا ں یہ سب کا م ہو ں تا کہ ہر کا م کے لیے لو گ مسجد میں آی اکر یں ۔ اس طرح مسجدیں آبا د ہو جا ئیں گی ۔
اور اگر ہم اپنی مسجدوں کے سا تھ علیحدہ سے جھو لے لگا دیں تو چھو ٹے بچے بھی آنا شروع ہو جا ئیں گے ۔ جب وہ ہاں کھیلیں گے تو مسجد میں شو ر بھی نہیں کر یں کیو نکہ مسجد میں شو ر نہیں کر نا چا ہیے ۔
ایک آدمی سا ئب بن یزید کہتے ہیں کہ میں مسجد نبو ی ﷺ میں کھرا ہو ا تھا ، کسی نے میر ی طرف کنکر ی پھینکی ۔ میں نے جو نظر اٹھا ئی تو دیکھا کہ حضر ت عمر بن خطا ب ؑ سا منے ہیں ۔آپ نے فر ما یا یہ جو سا منے شخص ہیں انہیں میر ے پا س بلا کر لا و ۔ میں بلا لا یا ۔ آپ نے پو چھا آپ کا تعلق کس قبیلے سے ہے یا یہ فر ما یا کہ کہا ں رہتے ہو ؟ انہو ں نے بتا یاکہ ہم طا ئف کے رہنے والے ہیں ۔ آپ ؑ نے فر ما یا اگر تم مد ینے کے ہو تے تو میں تمہیں سزا دیئے بغیر نہیں چھو ڑتا ۔ رسو ل ﷺ کی مسجد میں آواز اونچی کر تے ہو ؟
یعنی مسجد میں شو ر نہیں کر نا چا ہیئے ۔
نبی کر یم ﷺ ابو ایو ب کے مہما ن بن گئے ۔
پھر آپ ﷺ کو ابو ایو ب انصا ری اپنے گھر لے گئے اور آپ ﷺ وہیں رہنے لگے ۔
کچھ دن بعد آپ ﷺ کی بیو ی سودہ ؑ اور بیٹیا ں بھی ہجر ت کر کے مد ینہ آ گئیں ۔ البتہ بڑ ی بیٹی زینب ؑ کو ان کے سسرا ل والو ں نے نہیں آ نے دای ۔
مد ینہ سے محبت کی وجہ :
مد ینہ آنے کے بعد حضر ت ابو بکرؑ اور حضر ت بلال ؑکو بڑا ہی شدید بخا ر ہو گیا تو آپ ﷺ نے دعا کی ۔
اے اللہ ! ہما رے دلو ں میں مد ینہ کی محبت پیدا کر جیسا کہ ہمیں ( اپنے وطن ) مکہ کی محبت تھی بلکہ اس سے بھی زیا دہ مد ینہ کی محبت عطا کر اور اس کی آبو ہوا کو صحت بخش بنا دے اور ہما رے لیے اس کے صا ع اور مد میں بر کت عطا فر ما اور اس کے بخا ر کو کہیں اور منتقل کر دے اسے جحفہ نا می گا ؤ ں میں بھیج دے ۔
یہی وجہ ہے کہ سب مسلما ن مد ینہ سے محبت کر تے ہیں اللہ پا ک اس محبت کو قا ئم و دائم رکھے ۔ آمین
موا خا ت مد ینہ کی کہا نی :
ایک دن آپ ﷺ انس ؑ کے گھر بیٹھے ہو ئے تھے ۔ آپ ﷺ کے ساتھ بہت سے مہا جر و انصاری بھی بیٹھے تھے ۔ آپ نے ایک مہا جر اور ایک انصا ر کو بھا ئی بھا ئی بنا دیا ۔
پھر دوسرے مہا جر اور انصار کو بھا ئی بھا ئی بنا دیا ۔
اسی طرح وہان مو جو د سب مہا جر اور انصا ر کو بھا ئی بھا ئی بنا دیا ۔
عر بی میں بھا ئی کو اخ کہتے ہیں اس لیے بھا ئی چا رے کو اخو ت کہا جا تا ہے ۔ اور شہر کو مد ینہ ۔
اس بھا ئی بھا ئی بنا نے کے بعد ان کو گو ں میں سگے بھا ئیو ں سے بھی زیدا ہ پیا ر ہو گیا ۔ اسی لئے اسے مو اخا ت مد ینہ کہا جا تا ہے یعنی مد ینہ میں مسلما نو ں کو ملا نے اور پیا ر بڑ ھا نے کے لئے بھا ئی بھا ئی بنا نے کا وا قعہ ۔
امیر لو گو ں نے اپنے غر یب بھا ئیو ں میں اپنی دو لت تقسیم کی ۔ اسی طرح پو رے شہر میں تما م مسلما نو ں میں ایسا پیا ر و محبت پیدا ہو کہ جس کی مثال نہیں ملتی ۔