کوہ طور (یا کوہ سینا) مصر کے جزیرہ نما سینائی میں ایک پہاڑ ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وہ پہاڑ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بات کی اور انہیں دس احکام عطا فرمائے۔
موسیٰ اور طور کا قصہ قرآن، بائبل اور تورات میں مذکور ہے۔ قرآن میں کہا گیا ہے کہ جب موسیٰ بنی اسرائیل کو مصر سے باہر لے جا رہے تھے تو وہ کوہ سینا پر پہنچے۔ خدا نے موسیٰ کو پہاڑ سے بلایا اور انہیں دس احکام عطا کیے جو کہ اسلام کے بنیادی قوانین ہیں۔
دس احکام یہ ہیں:
میں رب تمہارا خدا ہوں جو تمہیں مصر سے غلامی کے ملک سے نکال لایا۔
میرے سامنے تیرا کوئی اور معبود نہ ہو۔
تم اپنے لیے اوپر آسمان میں یا نیچے زمین پر یا نیچے پانیوں میں کسی چیز کی شکل میں تصویر نہ بناؤ۔
نہ اُن کے آگے جھکنا اور نہ اُن کی عبادت کرنا۔ کیونکہ میں، خداوند تمہارا خدا، ایک غیرت مند خدا ہوں، والدین کے گناہ کی سزا اولاد کو ان لوگوں کی تیسری اور چوتھی نسل تک دیتا ہوں جو مجھ سے نفرت کرتے ہیں، لیکن جو مجھ سے محبت کرتے ہیں اور میرے احکام پر عمل کرتے ہیں ان کی ہزار نسلوں سے محبت کا اظہار کرتا ہوں۔ .
تم خداوند اپنے خدا کے نام کا غلط استعمال نہ کرو۔ رب کسی ایسے شخص کو بے قصور نہیں ٹھہرائے گا جو اُس کے نام کا غلط استعمال کرے۔
سبت کے دن کو مقدس رکھ کر یاد رکھیں۔ چھ دن مشقت کرنا اور اپنا سب کام کرنا لیکن ساتواں دن خداوند تمہارے خدا کے لئے سبت کا دن ہے۔ اُس پر کوئی کام نہ کرنا، نہ تُو، نہ تیرا بیٹا، نہ تیری بیٹی، نہ تیرا غلام، نہ تیری نوکرانی، نہ تیرے مویشی، نہ پردیسی تیرے پھاٹک کے اندر۔ کیونکہ رب نے آسمان اور زمین، سمندر اور جو کچھ ان میں ہے چھ دنوں میں بنایا، لیکن ساتویں دن آرام کیا۔ اس لیے رب نے سبت کے دن کو برکت دی اور اسے مقدس بنایا۔
اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرو تاکہ تم اس ملک میں لمبی عمر پاو جو خداوند تمہارا خدا تمہیں دے رہا ہے۔
تم قتل نہ کرو۔
تم زنا نہ کرو۔
تم چوری نہ کرو۔
اپنے پڑوسی کے خلاف جھوٹی گواہی نہ دینا۔
تم اپنے پڑوسی کے گھر کی لالچ نہ کرو۔ تُو اپنے پڑوسی کی بیوی، اُس کے مرد یا نوکر، اُس کے بیل یا گدھے یا اُس کی کسی چیز کا لالچ نہ کرنا۔
دس احکام کو یہودی اور اسلامی قانون کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ وہ عیسائیت میں بھی اہم ہیں، حالانکہ نئے عہد نامے میں ان کا ذکر نہیں ہے۔
موسیٰ اور تور کی کہانی خدا کی قدرت اور اس کے لوگوں کے لیے محبت کی یاد دہانی ہے۔ یہ خدا کے احکام کی اطاعت کی اہمیت کی بھی یاد دہانی ہے۔