مکّے کے سنگلاخ پہاڑوں کے عقب میں 85کلومیٹر مشرق کی جانب، طائف کی سرسبز و شاداب وادی سے ذرا آگے، بنی ہوازن کا علاقہ تھا، جہاں قبیلہ بنی سعد آباد تھا۔ عرب کا یہ قدیم قبیلہ اپنی فصاحت و بلاغت اور حکمت و شیریں کلامی کی بنا پر حجاز میں معروف تھا۔
یہ لوگ نہ صرف خود فصیح وبلیغ عربی بولتے، بلکہ اس زبان کے محافظ اور معلّم بھی تھے۔ اسی خُوبی کی بنا پر عرب کے صاحبِ حیثیت شہری اپنے بچّوں کو ذہنی و جسمانی تربیت اور خالص عربی زبان سیکھنے کی غرض سے ایک خاص مدّت تک اس قبیلے کی خواتین کے حوالے کر دیا کرتے تھے۔ یہ عورتیں سال میں دو مرتبہ شہروں کا رُخ کرتیں اور نومولود بچّوں کو مناسب اُجرت پر اپنے ساتھ لے جاتیں۔ ان ہی عورتوں میں ایک معزّز و محترم خاتون، حضرت حلیمہ سعدیہؓ بھی تھیں، جنہیں نبی آخرالزّماں، سرورِ کائنات، نبی کریمﷺ کو ایّامِ رضاعت میں اپنی آغوش میں رکھنے اور دو سال تک دُودھ پلانے کا شرفِ عظیم نصیب ہوا۔ ان کے شوہر کا نام، حارث بن عبدالعزیٰ اور کنیت، ابو کبثہ تھی۔ وہ بھی قبیلہ بنی سعد ہی سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت حلیمہؓ کے بچّے، عبداللہ، انیسہ اور شیما آنحضرتﷺ کے رضاعی بہن، بھائی تھے۔ حضورﷺ کو اپنی رضاعی بہن، شیما سے بے حد اُنسیت تھی کہ وہی آپﷺ کو گود میں کِھلاتیں اور لوریاں دیا کرتی تھیں۔وہ فرماتی ہیں’’ اُن دِنوں ہمارا علاقہ شدید ترین قحط اور خشک سالی کا شکار تھا۔ وہ مئی کا ایک سخت گرم دِن تھا کہ جب ہمارے قبیلے سے خواتین کا ایک قافلہ نوزائیدہ بچّوں کے حصول کے لیے مکّے کی جانب روانہ ہوا۔ اس قافلے میں شامل خواتین میں سے ایک مَیں بھی تھی۔ مَیں اپنی سفید لاغر گدھی پر سوار تھی۔ میرا خاوند حارث، دُودھ پیتا بچّہ عبداللہ اور میری خستہ حال، کم زور اونٹنی بھی ساتھ تھی۔ میری گدھی نقاہت اور کم زوری کے سبب نہایت سُست رفتاری سے سفر طے کر رہی تھی، جس کی بنا پر قافلے کی سب خواتین مجھ سے عاجز تھیں۔
چناں چہ وہ سب مجھ سے پہلے مکّہ پہنچ گئیں۔ اُنھیں سب سے پہلے حرمِ کعبہ کے متولّی اور مکّے کے سردار، عبدالمطلب کے گھر لے جایا گیا، لیکن انھوں نے جب بچّے کے یتیم ہونے کا سُنا، تو خاطرخواہ انعام و اکرام نہ ملنے کے اندیشے کے پیشِ نظر بچّہ لینے سے انکار کر دیا۔ یہاں تک کہ جب میری سواری مکّہ پہنچی، تو ہمارے قبیلے کی تمام خواتین بچّے حاصل کر چُکی تھیں۔ مَیں نے اپنے شوہر سے کہا’’ اللہ کی قسم! مجھے خالی ہاتھ جانا ذرا اچھا نہیں لگتا۔‘‘ اور پھر اپنے شوہر کے مشورے پر اس یتیم بچّے کو صرف اِس بنا پر لے لیا کہ قبیلے کے لوگ خالی ہاتھ آنے کا طعنہ نہ دیں۔‘‘
حلیمہ سعدیہؓ کہتی ہیں کہ’’ جب مَیں نے آمنہ کے لالؐ کو گود میں لیا اور اپنے ڈیرے پر آئی، تو دیکھا کہ میری سوکھی چھاتیاں دُودھ سے بَھر چُکی ہیں۔ میرا بچّہ بھوک سے ہر وقت روتا رہتا تھا، آج پہلی مرتبہ اُس نے اور آنحضرتﷺ نے بھی شکم سیر ہو کر دُودھ پیا، اس کے باوجود دُودھ کم نہ ہوا۔ شوہر کی نظر اونٹنی پر پڑی، تو اُس کے سوکھے تَھن دُودھ سے لب ریز تھے۔ واپسی کے سفر پر میری لاغر گدھی نے اپنی تیز رفتاری سے سب کو حیران کر دیا۔ میری ساتھی عورتیں رَشک و حسد میں مبتلا ہو کر مجھ پر آوازیں کَسنے لگیں۔ جب ہم گھر پہنچے، تو میرے گھر پر اللہ کی برکتوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ ہمارا پورا علاقہ قحط زدہ تھا اور لوگ بدحال تھے، لیکن میرے گھر والے، میرے مال مویشی دُودھ اور چارے سے آسودہ حال تھے۔ ہم ہر وقت اللہ کا شُکر ادا کرتے۔ دو سال بعد مَیں نے آنحضرتﷺ کا دُودھ چھڑوا دیا۔ اپنے مضبوط قد و قامت کی بنا پر آپﷺ چار سال کے لگتے تھے۔ ہم اُنہیں حضرت آمنہ ؓکے پاس لے گئے۔ اُس زمانے میں مکّہ بیماری کی زَد میں تھا، لہٰذا ہم نے بے حد اصرار کر کے اُنہیں دوبارہ اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت لے لی۔‘‘ (سیرت ابنِ اسحاق 144، 142)۔ابھی آپﷺ چوتھے یا پانچویں سال میں تھے کہ شقِ صدر کا واقعہ پیش آیا۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ اپنے رضاعی بہن، بھائیوں کے ساتھ گھر کے قریب ہی ایک جگہ کھیل رہے تھے کہ اچانک حضرت جبرائیل امینؑ تشریف لائے۔ اُنہوں نے آپﷺ کو لِٹایا، سینہ چاک کر کے دِل باہر نکالا، اُسے سونے کے طشت میں آبِ زَم زَم سے دھویا اور پھر دوبارہ اپنے مقام پر رکھ کر سینہ بند کر دیا۔ جب بہن، بھائیوں نے یہ منظر دیکھا، تو چیختے چلّاتے گھر پہنچے اور ماں کو بتایا کہ کسی نے (حضرت)محمّد(ﷺ) کو قتل کر دیا ہے۔(نعوذباللہ)۔ حلیمہؓ اور اُن کے شوہر دوڑتے ہوئے وہاں پہنچے، تو دیکھا کہ آپﷺ صحیح سلامت بیٹھے ہیں، لیکن آپﷺ کا رنگ اُترا ہوا تھا‘‘(صحیح مسلم، باب الاسراء 92/1)۔ابھی کچھ ہی دِن گزرے تھے کہ دو یہودی راہب، حضرت حلیمہؓ کے پاس آئے اور آنحضرتﷺ کے بارے میں تفصیل پوچھنے لگے۔ اُن میں سے ایک نے پوچھا’’ کیا یہ بچّہ یتیم ہے؟‘‘ حلیمہ سعدیہؓ کو اُن پر کچھ شک ہو گیا تھا، چناں چہ جلدی سے بولیں’’ نہیں۔‘‘ پھر اپنے شوہر کی جانب اشارہ کر کے کہا’’ یہ اس بچّے کا باپ اور مَیں ماں ہوں۔‘‘ راہب بولا’’ اگر یہ بچّہ یتیم ہوتا، تو ہم اسے قتل کر ڈالتے۔‘‘نعوذباللہ(طبقات ابنِ سعد، 119/1)۔حضرت حلیمہ سعدیہؓ کہتی ہیں کہ مَیں نے دیکھا کہ ایک بادل کا ٹکڑا آنحضرتﷺ پر سایۂ فگن رہتا ۔ جب آپﷺ ٹھہر جاتے، تو وہ بھی ٹھہر جاتا اور جب آپﷺ چلتے، تو وہ بھی چلنے لگتا۔ یہ چند معجزات ایسے تھے کہ جن کی بناء پر امّاں حلیمہؓ خوف زدہ ہو گئیں اور آنحضرتﷺ کی حفاظت کے پیشِ نظر آپﷺ کو والدہ کے حوالے کر آئیں۔ اُس وقت عُمرِ مبارک پانچ سال تھی(طبقات ابنِ سعد 118/1)۔حضورﷺ، صحابۂ کرامؓ سے فرمایا کرتے کہ’’ مَیں تم سب میں زیادہ فصیح ہوں، اِس لیے کہ مَیں قریش سے ہوں اور میری زبان، بنی سعد بن بکر کی زبان ہے، جو عرب کے فصحاء مشہور تھے۔‘‘ آنحضرتﷺ کی جوانی میں کہ جب آپﷺ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ سے نکاح فرما چُکے تھے، حضرت حلیمہؓ ملاقات کے لیے تشریف لائیں۔ حضورﷺ نے اُنہیں دیکھا، تو بہت خوش ہوئے اور عزّت و احترام کے ساتھ حضرت خدیجہؓ سے ملوایا۔ حضرت حلیمہؓ کی خستہ حالی دیکھتے ہوئے حال احوال معلوم کیا، تو اُنہوں نے خشک سالی اور مویشیوں کے ہلاک ہونے کے بارے میں بتایا۔ اُمّ المومنین، حضرت خدیجہؓ کو جب پتا چلا، تو اُنہوں نے حضرت حلیمہؓ کو چالیس بکریاں اور سواری کے لیے ایک اونٹ عنایت کیا، جو مال و متاع سے لدا ہوا تھا۔ آنحضرتﷺ نے یہ سب سامان دے کر اپنی والدہ کو رُخصت کیا (طبقات ابنِ سعد 120/1)۔ رسول اللہﷺ ایک دن مسجدِ نبوی میں صحابۂ کرامؓ کے ساتھ مصروفِ گفتگو تھے کہ کسی نے اطلاع دی کہ ایک بوڑھی عورت ملاقات کی متمنّی ہے۔ آپﷺ نے اجازت دے دی۔ جیسے ہی آپﷺ کی بوڑھی عورت کے چہرے پر نظر پڑی، تو تیزی سے اُٹھے اور’’ میری ماں، میری ماں‘‘ کہتے ہوئے اُن سے لپٹ گئے۔پھر اُن کے لیے اپنی چادر بِچھائی اور اُنہیں عزّت و احترام سے بٹھایا۔ اُن کی خُوب خاطر مدارت کی اور بہت سے تحائف کے ساتھ رُخصت کیا۔ روایت میں ہے کہ آپﷺ اُس وقت تک دروازے پر کھڑے رہے، جب تک اُن کی سواری نظروں سے اوجھل نہ ہوگئی۔ آپﷺ نے صحابۂ کرامؓ کے پوچھنے پر فرمایا’’ یہ میری وہ ماں ہیں، جنہوں نے مجھے دو سال تک دُودھ پلایا اور جن کے گھر مَیں نے 5 سال کی عُمر تک قیام کیا۔‘‘حضرت حلیمہ سعدیہؓ کا سلسلۂ نسب یوں ہے:حلیمہ بنتِ ابی زویب بن عبداللہ بن الحارث بن شجنہ بن جابر بن رزام بن ناصرہ بن سعد بن بکر بن ہوازن (اسدالغابہ)۔ علّامہ ابو عبداللہ محمّد بن سعد البصریٰ نے طبقات ابنِ سعد میں حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے والد کا نام، عبداللہ تحریر کیا ہے۔رسول اللہﷺ کی بعثت کی اطلاع قبیلہ بنو سعد تک بھی پہنچ چکی تھی۔ امّاں حلیمہؓ اس خبر پر خوشی سے نہال تھیں اور ایّامِ رضاعت کے دَوران پیش آنے والے واقعات یاد کرتیں اور کہتیں’’ مجھے تو پہلے ہی سے اِس بات کا یقین تھا کہ میری گود میں پلنے والا یہ مبارک بچّہ اللہ کا نہایت مقرّب و برگزیدہ بندہ ہے اور ضرور یہ کسی بہت بڑے منصب پر فائز ہوگا۔ جس بچّے کے دُنیا میں رونق اَفروز ہوتے ہی رحمتوں کا نزول شروع ہوگیا ہو، وہ ضرور پوری دُنیا کے لیے رحمت ثابت ہوگا۔ اللہ کا شُکر ہے کہ آج میرا وہ یقین سچ ثابت ہوگیا اور اللہ نے میرے فرزند عزیز کو سب سے بُلند و بالا مقام سے نوازا، لیکن ابھی تک مَیں نے حضرت محمّدﷺ کے اس اعزازِ عظیم کے بارے میں دُوسروں کی زبانی سُنا ہے، مگر اب مجھ سے صبر نہیں ہوتا۔ مَیں اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھوں گی، جب تک خود اُن کی خدمتِ اقدسؐ میں حاضر ہو کر دینِ محمّدیؐ نہ اختیار کر لوں۔‘‘ چناں چہ اُنہوں نے اپنے بچّوں اور شوہر کے ساتھ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کا قصد کیا اور وہاں پہنچ کر سب مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ ان میں حضرت حلیمہؓ کی صاحب زادی، حضرت شیماؓ بھی شامل تھیں۔موّرخین لکھتے ہیں کہ حارث جب اپنے اہل و عیّال کے ساتھ آنحضرتﷺ سے ملاقات کے لیے مکّہ تشریف لائے، تو اہلِ قریش نے اُنہیں دیکھ کر کہا’’ اے حارث! کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارا بیٹا کیا کہتا ہے؟‘‘ اُنہوں نے پوچھا’’ وہ کیا کہتے ہیں؟‘‘ کفّار نے کہا’’ وہ ہمارے خدائوں کو بُرا کہتا ہے۔ ایک اللہ اور جنّت، دوزخ کی بات کرتا ہے۔
اس نے ہمارا اتحاد پارہ پارہ کر کے تفرقہ ڈال دیا ہے۔‘‘ حارث، حضور انورﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا’’ میرے بیٹے! آپﷺ کی قوم جو شکوہ کر رہی ہے، کیا وہ سچ ہے؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا’’ نہ صرف وہ سچ ہے، بلکہ روزِ قیامت آپ خود بھی دیکھیں گے۔‘‘ حارث پر اِس گفتگو کا اِس قدر اَثر ہوا کہ فوراً کلمہ پڑھ لیا اور تبلیغِ دین میں مصروف ہوگئے۔غزوۂ حنین میں حضورﷺ کی رضاعی بہن، شیما بنتِ حارثؓ گرفتار ہوئیں، تو اُنہوں نے کہا’’ مَیں رسول اللہﷺ کی بہن ہوں۔‘‘ یہ سُن کر لوگ اُنہیں آنحضرتﷺ کے پاس لے آئے۔ آنحضرتﷺ نے نہ صرف اُنہیں پہچان لیا، بلکہ اُنہیں اپنے سامنے دیکھ کر جلدی سے اُٹھے، اپنی چادر زمین پر بِچھائی اور بہن کو اپنے پاس بِٹھا کر دیر تک بچپن کی یادیں تازہ کرتے رہے۔ یہ وہی بہن تھیں، جو حضورﷺ کو ہر وقت گود میں لیے پِھرتی رہتی تھیں۔ حضورﷺ نے اُنہیں مدینہ منوّرہ میں رہنے کی پیش کش کی، لیکن اُنہوں نے اپنے گھر جانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ آپﷺ نے اُنہیں بہت سا مال، اونٹ اور بھیڑ، بکریاں تحفے میں دیں اور عزّت و احترام کے ساتھ گھر روانہ کر دیا۔یہ رضاعی ماں حضرت حلیمہ سعدیہؓ سے مقدّس رشتے ہی کا احترام تھا کہ آپﷺ نے غزوۂ حنین کے دَوران قید کیے گئے قبیلہ بنو ہوازن کے چھے ہزار قیدی رہا کر دیے اور بے شمار مالِ غنیمت واپس کر دیا۔ اِس لیے کہ وہ سب امّاں حلیمہؓ کے رشتے دار ہونے کے ناتے آپﷺ کے بھی رضاعی رشتے دار تھے۔وفاتحضرت حلیمہؓ کا انتقال 8 ہجری،629عیسوی میں 79سال کی عُمر میں مدینہ منوّرہ میں ہوا اور اُن کی تدفین جنّت البقیع میں ہوئی۔