امام سجاد، جنہیں علی ابن حسین زین العابدین کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، بارہویں شیعہ اسلام کے چوتھے امام تھے۔ وہ مدینہ میں 38 ہجری (659 عیسوی) میں پیدا ہوئے اور وہیں 95 ہجری (713 عیسوی) میں وفات پائی۔
وہ امام حسین کے بیٹے اور پیغمبر اسلام کے نواسے تھے۔
امام سجاد علیہ السلام انتہائی متقی اور روحانی انسان تھے۔ وہ اپنی لمبی اور کثرت سے دعاؤں، اپنے روزوں اور صدقہ کے کاموں کے لیے جانےجاتے تھے۔ وہ ایک عالم اور شاعر بھی تھے۔ ان کی سب سے مشہور تصنیف صحیفہ سجادیہ ہے جو دعاؤں اور مناجات کا مجموعہ ہے۔امام سجاد علیہ السلام سانحہ کربلا کے عینی شاہد تھے جہاں ان کے والد اور ان کے خاندان کے کئی افراد شہید ہوئے تھے۔ انہیں اموی خلیفہ یزید نے قید بھی کیا۔ تاہم، انہوں نے کبھی اپنا یقین یا اپنی امید نہیں کھوئی۔ وہ تبلیغ اور درس دیتے رہے اور وہ ظلم کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئے۔امام سجادؑ کی میراث بہت زیادہ ہے۔ وہ شیعہ مسلمانوں میں ایک عظیم ولی اور تقویٰ اور عقیدت کے نمونے کے طور پر قابل احترام ہیں۔ ان کی دعائیں اور دعائیں آج بھی مسلمان پڑھتے ہیں۔ حضرت امام حسین بتا تے ہیں کہ جب حضرت امام سجاد پیدا ہو ئے تو ان کے دادا حضرت علی ان کو گود میں ا ٹھا یا اور زاروقطار رونے لگے ، حضرت امام حسین نے پوچھا ابا جان آ پ کیوں رو رہے کہ اامام حسین آپ کے اس بیٹے نے بہت تقلیف اور مصیبت جیلنی ہیں ، خون کے انسوں روئے گا ، جب آ پ کو شہید کر دیا جا ئے گا تو لوگ ان کو قید میں ڈا ل دےگے نہ صرف انہیں کو بلکہ ان کی پھو پھیاں ، ان کی مائیں بہنیں سب کو قید خانے میں ڈا ل دیا جا ئے گا ۔ مسجد میں حضرت علی کو ا بن ابی طالب نے شہید کر دیا اس کے بعد حضرت اما حسین نے مکہ سے ہجرت کر کے کربلا کی جانب سفر شروع کیا راستے میں جب مسلم بن مقیم کو شمر نے شہید کر دیا تو ان کا خون کھول آ ٹھا حضرت امام حسین نے کہا بیٹا ابھی آ پ کی آ زمائش کا وقت نہیں آ یا میرے بیٹے میری شہادت کے بعد اپنے نانا رسول کے دین کے پرچم بلند رکھنا بیٹا بہت صبر سے کام لینا آ نے والا وقت بہت مشکل ہوگا قدم قدم پر آ پ کو مصبیتوں سے دو چار ہونا ہو گا ۔ یہ سب سن کر حضرت امام سجاد دن با دبن علیل ہو تے گے یہاں تک کے کر بلا میں بستر پر تھے اُٹھ بھی نہیں سکتے تھے ۔ آخیر وہ وقت بھی آ گیا جب حضرت امام حسین خیمہ میں تشریف لائے اور ان کا پورا لبا س خون سے لت پٹ تھا حضرت امام سجاد نے پو چھا ابا اجان آپ کے کپڑو ں پر خون کیسا فرما یااے میرے بیٹے اپنے با با کا آخری سلام قبول کر لوں میں صبح سے شام تک لاشیوں اٹھاتا رہا ہوں میرے بیٹے میں غریب ہو گیا ہوں تمہارے چچا ، عباس ، تمہارے بھا ئی علی اصغر، علی اکبر فرما یا یہ سب نہر کے کناے سو ئے ہیں سب کو شہید کر دیا گیا ہے۔ میرے بیٹے میرے جانے کا وقت آ گیا ۔حضرت امام سجاد نے فرمایا با با جان آ پ کے پاس ایک لاٹھی اور تلوار ہیں پو چھا بیٹا کیوں جواب دیا با جان میں بھی آ پ کے قدموں میں اپنی جان نچھاور کر دینا چا ہتا ہوں ، فرمایا میرے بیٹے ابھی آ پ کا وقت نہیں آ یا ابھی آ پ کو بہت کچھ برداشت کرنا ہو گا ۔ آ پ کو اپنی بہنوں اپنی خاندان کی سب خواتین کو دیکھنا ہو گا ۔ میرے بیٹے ہمت مت ہارنا اپنے نانا رسول کے دین کی حفاظت کرنا میرے بیٹے سب تمہیں با غی کا بیٹا کہے گے تم پر پتھر برسائے جا ئے گے قید میں ڈا لا جا ئے گا ۔یہ کہ کر حضرت امام حسین کربلا میدان کی جانب روانہ ہو ئے آ پ نے جاتے کہا میں و ہی حسین ہوں جس کو نانا رسول نے اپنے کندھوں پر سوار کیا تھا ، میں وہی نواسہ رسول ہوں جس کے لبوں کو چما تھا ، مگر ظالموں نے ہر طرف تیر، نیزے تلواروں کی بو چھار کر دی کو ئی تیر مار رہا ہے کو ئی نیزا پھینک رہا ہے جس کے پاس کچھ نہ ہوتا وہ کربلا کی ریت مارتا ۔ آخیر آپ گھوڑے سے نیچے گیرے اور شمر نے گردن پر تلوار رکھی یہ سب منظر دیکھنے والی ان کی بہن زنیب تھی جو با گتی ہو ئی حضرت امام سجاد کے پاس آ ئی بو لی اٹھو بابا شہید ہو گے امام سجاد اپنے بستر سے اٹھے کہا قیامت نہ آ جا ئیں سجدے میں گر گے دعا کی یا اللہ تیرا شکر ہے تم نے ہم سے یہ قر بانی لی یا اللہ تیرا شکر ہے تم نے یہ زمین آسمان پیدا کیں ، یا اللہ تیرا شکر ہے جو تم نے یہ زمین بنا ئی اتنے میں شمر اپنے سپا ہیوں سمت داخل ہوا اور کہا ا ٹھو جلدی سے ہم یزید کے دربار پر تم لوگوں کو لے چلے تا کہ ہمیں انعام ملے ۔ حضرت امام سجاد کو زنجیریں پہنا ئی گئی نواسہ رسول کےاہل خاندان کی خواتین کے پردے کو پا مال کیا گیا سب کو قیدی بنا کر لے جایا گیا اور شام کی جانب راونہ ہو ئے ۔ حضرت امام سجاد آگے دیکھتے تو ان کے سب مردوں کے سر کا ٹ کر تلوروں پر لٹکائیں گے پیچھے دیکھتے تو ان کی عورتیں پے پرادہ تھی اور پھر دیکھتے گرتے پھر اٹھتے اس وقت کوفہ کی جانب روانہ ہوتے ہو ئے 64 بچے بھی ہمراہ ساتھ تھے کہا جا تا ہے جب کو ئی بچہ گر جاتا تو انٹوں کے پاؤں تلے کچلا جا تا جب خود گرتے ظا لم شمر مارتا پھر اٹھا تا بل آ خیر جب یز ید کے محل پہنچے تو اس نے سب کو روک دیا اور کہا روک جا ؤں میں اپنے محل کو سجا لوں سجاوٹ کر لوں تا کہ نواسہ رسول کے اہل خانہ رکو پتہ چلے کسی بادشا ہ کے دربار پر آ ئے تھے ۔ روایت میں ہے 3 دن تک رسول کے اہل خا نہ کو با ہر ٹھہرنا پڑا جب سب کو یزید کے سامنے پیش کیا گیا تو یز ید نے کہا کہ میں اپنے ابا ؤ اجداد کے جنگ احد اور جنگ بدر کا بدلہ لے لیا کہتا اگر آ ج وہ لو گ ہوتے تو دیکھتا میں نواسہ رسول کے اہل خانہ کا کیا حا ل کیا ہے ، حضرت امام سجاد نے کہا مجھے بھی بو لنے کا مو قع دیا جا ئے شمر نے کہا یہ بیمار ہے کیا کر سکتا ہے بو لنے دوں آپ نے کہا میں اس کا بیٹا ہوں جس کو تین دن پیا سا رکھا گیا ، میں اس کو بیٹا ہوں جس کا سر کاٹ کر لٹکا دیا گیا میری پھوپوں میری بہنوں کے پردے کو پا مال کیا گیا ، اتنے میں دربار کے لوگ یزید کی جناب دیکھنے لگ گے اس نے حکم دیا ازان دوں تا کہ اس کی آواز کو ئی نہ سن سکے جب آزان دی گئی لاالہ کہا گیا کس نے تم لوگوں کو کلمہ سکھا یا تھا یہ دین میرے نانا یا لا ئے تھے یا یزید تمہارے نا نا ، کس نے تم لو گوں کو دین سیکھا یا میرے نانا نے یا یزید کے نا نا نے اتنے میں سب لوگ بغاوت پر اتر آ ئیں یزید نے سب کو قید میں ڈال دیا روایت میں ہر دو سال چھ ماہ قید میں رکھنے کے بعد رہا کیا گیا ۔ رویت میں 35 سال تک حضرت اما سجاد مسکرا ئے نہیں کھان دیکھتے تو روتے پانی دیکھتے تو روتے ،بازار ک نام سنتے جب روتے انہوں نے اپنی زندگی دین اسلام اور لوگوں کے لیے وقف کر دی ۔ولید بن عبدلملک نے آ پ کو زہر دے دیا ان کے بیٹے امام محمد باکر علی حسین بہت روئے کسی نے پوچھا کونسی پہلی شہادت تھی آ پ نے جواب دی ہمارے گھر سے آ ج پہلی بار اتنی شان سے جنا زہ اٹھا ہے اس لیے رو رہا ہوں ۔
امام سجاد علیہ السلام انتہائی متقی اور روحانی انسان تھے۔ وہ اپنی لمبی اور کثرت سے دعاؤں، اپنے روزوں اور صدقہ کے کاموں کے لیے جانےجاتے تھے۔ وہ ایک عالم اور شاعر بھی تھے۔ ان کی سب سے مشہور تصنیف صحیفہ سجادیہ ہے جو دعاؤں اور مناجات کا مجموعہ ہے۔امام سجاد علیہ السلام سانحہ کربلا کے عینی شاہد تھے جہاں ان کے والد اور ان کے خاندان کے کئی افراد شہید ہوئے تھے۔ انہیں اموی خلیفہ یزید نے قید بھی کیا۔ تاہم، انہوں نے کبھی اپنا یقین یا اپنی امید نہیں کھوئی۔ وہ تبلیغ اور درس دیتے رہے اور وہ ظلم کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئے۔امام سجادؑ کی میراث بہت زیادہ ہے۔ وہ شیعہ مسلمانوں میں ایک عظیم ولی اور تقویٰ اور عقیدت کے نمونے کے طور پر قابل احترام ہیں۔ ان کی دعائیں اور دعائیں آج بھی مسلمان پڑھتے ہیں۔امام سجاد علیہ السلام جن القابات سے مشہور تھے ان میں سے کچھ یہ ہیں زین العابدین (عبادت کرنے والوں کا زیور)سید الساجدین (سجدہ کرنے والوں کے آقا)سجاد (عبادت میں مسلسل سجدہ کرنے والا)ابن الخیراتین (بہترین دو کا بیٹاامام سجاد کی وفات 25 محرم 95 ہجری (713 عیسوی) کو مدینہ میں ہوئی۔ انہیں اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے حکم سے زہر دیا گیا۔امام سجاد کی وفات شیعہ برادری کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ وہ ایک عقلمند اور ہمدرد رہنما تھے، اور اپنے پیروکاروں کی طرف سے ان سے گہری محبت تھی۔ ان کی شہادت اس ظلم کی یاد دہانی تھی جس کا شیعہ برادری کو اموی دور میں سامنا کرنا پڑا۔امام سجاد کے جسد خاکی کو مدینہ کے بقیع قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کا مقبرہ پوری دنیا کے شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک مقبول زیارت گاہ ہے۔امام سجاد علیہ السلام کی زندگی اور وفات کا مختصر وقت یہ ہے:ھ (659 عیسوی): مدینہ میں پیدا ہوئے۔ ہجری (680 عیسوی): کربلا کے سانحے کا گواہ-684 عیسوی: یزید کے ہاتھوں قید
684-95ھ: امامتھ (713ء): مدینہ میں وفات پائی
امام سجاد علیہ السلام کی وفات ایک عظیم سانحہ تھا، لیکن ان کی میراث زندہ ہے۔ انہیں ایک دانشمند اور ہمدرد رہنما، ایک عظیم عالم اور شاعر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی دعائیں اور دعائیں آج بھی مسلمان پڑھتے ہیں۔ضرور حرم امام سجاد سعودی عرب کے شہر مدینہ میں واقع ہے۔ یہ شیعہ مسلمانوں کے لیے سب سے اہم مقدس مقامات میں سے ایک ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مزار امام سجاد کی قبر پر بنایا گیا تھا، جن کا انتقال 713 عیسوی میں ہوا۔مدینہ میں امام سجاد کا روضہ مزار ایک بڑا کمپلیکس ہے جس میں ایک مسجد، ایک لائبریری اور ایک میوزیم شامل ہے۔ مسجد مدینہ میں شیعہ مسلمانوں کی مرکزی عبادت گاہ ہے۔ یہ ایک خوبصورت عمارت ہے جس میں ایک بڑا گنبد اور چار مینار ہیں۔ لائبریری میں شیعہ اسلام پر کتابوں اور مخطوطات کا ذخیرہ موجود ہے۔ عجائب گھر میں امام سجاد علیہ السلام اور ان کے خاندان سے متعلق نوادرات کا ایک مجموعہ موجود ہے۔یہ مزار پوری دنیا کے شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک مقبول زیارت گاہ ہے۔ یہ سنی مسلمانوں کے لیے بھی بہت اہمیت کا حامل مقام ہے، جو امام سجاد کو ایک عظیم عالم اور ولی کی حیثیت سے عزت دیتے ہیں۔مزار تمام مذاہب کے زائرین کے لیے کھلا ہے۔ تاہم، معمولی لباس پہننا اور مذہبی ماحول کا احترام کرنا ضروری ہے۔دُل تفنات (دعاؤں سے)الزکی (خالص)الامین (قابل اعتماد)امام سجاد کی زندگی اور تعلیمات کا شیعہ اسلام پر گہرا اثر پڑا ہے۔ وہ تمام فرقوں کے مسلمانوں کے لیے ایک رول ماڈل ہیں، اور ان کی میراث آج بھی لوگوں کو متاثر کرتی ہے۔