جمعہ عربی لفظ ہے۔ اجتماع سے مشتق ہے، جمعہ (جمع ہونے کا دن)۔ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد جمع کی جائے گی یا اس وجہ سے کہ حضرت آدم علیہ السلام حضرت حوّا علیہا السلام زمین پر اسی روز ملے تھے (فتح القدیر) یا اسلام میں جب اس کو مسلمانوں کے اجتماع کا دن قرار دیا گیا تو اس کو جمعہ کہا گیا۔ حدیث شریف میں جمعہ کے کئی نام ذکر کئے گئے ہیں۔ سیدالایام (دنوں کا سردار)، خیرالایام (بہترین دن) افضل الایام (زیادہ فضیلت والا دن)، شاھدٌ، (حاضرین کا دن) یوم المزید (نعمتوں کی زیادتی کا دن)، عیدالمومنین (مسلمانوں کی عید)، زمانہ جاہلیت میں اس دن کو یوم عروبہ (رحمت کا دن) کہا جاتا تھا۔ جمعہ دراصل ایک اسلامی اصطلاح ہے۔ یہود کے یہاں ہفتہ کا دن عبادت کے لیے مخصوص تھا کیونکہ اسی دن خدا نے بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات بخشی تھی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” وہ بہترین دن جس پر سورج طلوع ہوا جمعہ کا دن ہے ، اسی دن حضرت آدم علیہ السلام تخلیق کیے گئے ، اسی دن جنت میں داخل کیے گئے اور اسی دن وہاں سے نکالے گئے اور اسی دن قیامت واقع ہو گی(صحیح بخاری )۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن کا ذکر کیا تو ارشاد فرمایا” اس میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ جس مسلمان بندے کو وہ میسر آ جائے اور وہ کھڑا ہوا نماز پڑھ رہا ہو ، تو وہ اللہ تعالیٰ سے جس چیز کا سوال کرے ، اللہ تعالیٰ اسے ضرور عطا فرمادیتا ہے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس گھڑی کے مختصر ہونے کا اشارہ فرمایا“ ( بخاری و مسلم )۔
مسلم کی ایک حدیث کے مطابق وہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے نمازِ جمعہ کے ختم ہونے تک ہے ، اور ترمذی کی ایک حدیث کے مطابق یہ گھڑی عصر سے لے کر سورج غروب ہونے تک تلاش کی جائے ۔ جمعہ کے دن ادائے شکر کے لئے نماز جمعہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ”مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے گی تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو“ ( سورة الجمعہ 9 )۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ”جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اورجس قدر ممکن ہوا پاکی حاصل کی، پھر تیل یا خوشبواستعمال کیا، پھر نماز جمعہ کے لئے روانہ ہوا اور (مسجد میں پہنچ کر) دو آدمیوں کے درمیان (گھس کر) تفریق نہ کی، پھر جتنی (نفل) نماز اس کی قسمت میں تھی اداکی، پھر جب امام (خطبہ کے لئے ) باہر آیا تو خاموشی اختیار کی، تو اس شخص کے اس جمعہ سے لے کر سابقہ جمعہ تک کے سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں“۔ (صحیح بخاری) امام مسلمؒ نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں دس دنوں کے گناہوں کی مغفرت کی بشارت ہے ۔
ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ ”جو شخص جمعہ کے دن اپنا سر دھوئے اور غسل کرے اور صبح سویرے (یعنی اول وقت میں مسجد) جائے (تاکہ) شروع سے خطبہ پالے اور سوار نہ ہو (یعنی پیدل چل کر جائے )، اور امام کے قریب بیٹھے پھر غورسے خطبہ سنے اور کوئی لغو بات زبان سے نہ نکالے تو اس کے لئے ہر قدم اٹھانے کے بدلے ایک سال کے روزوں اور رات کو قیام کی عبادت کا ثواب ہوگا“ (سنن ابی دائود)۔