حضرت بی بی زینب (س) علی ابن ابی طالب اور فاطمہ بنت محمد کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ وہ مدینہ میں 626 عیسوی میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک متقی مسلمان اور عالم خاتون تھیں۔ وہ ایک ہنر مند مقرر اور دلیر لیڈر بھی تھیں۔
680 عیسوی میں ان کا بھائی حسین کربلا کی جنگ میں شہید ہو ئے ۔ زینب کو حسین کے خاندان کی دیگر خواتین اور بچوں کے ساتھ اسیر کر لیا گیا۔ انہیں کوفہ اور پھر دمشق کی طرف مارچ کیا گیا، جہاں اس نے کربلا میں قتل عام کا حکم دینے والے اموی خلیفہ یزید اول کی مذمت کرتے ہوئے جذباتی تقریریں کیں۔زینب کی تقریریں یزید اور اس کی حکومت کے لیے ایک زبردست سرزنش تھیں۔ انہوں نے بنی امیہ کی مخالفت کو تیز کرنے اور کربلا کے پیغام کو پوری مسلم دنیا میں پھیلانے میں مدد کی۔ زینب کی ہمت اور قیادت نے بہت سے لوگوں کو متاثر کیا، اور انہیں مسلم خواتین کے لیے ایک رول ماڈل سمجھا جاتا ہے۔حضرت بی بی زینب کا خطاب ابھی بھی ہمارے لیے ایک مشورہ ہے یہ ہمن انصاف اور عدالت کے لیے لڑنے اور ایک ایسی دنیا بنانے کی تلاش کرنے کا طالب کرتا ہے جہاں ہر کسی کو حق اور عدالت کا حق ملے گایزید نے عبداللہ بن زبعری سہمی کے کفر آمیز اشعار پڑھے جو اس نے بحاکت کفر کہے تھے ۔ ساتھ ہی ان ان میں کچھ اضا فہ کیا اور صریحا کہا کہ میں فر ندان محمدسے اپنے ا با ء کا انتقام لینا چا ہتا ہوں جو یاران محمد کے پاتوں قتل ہو ئے تھے ۔زینب علی اٹھیں ،تقریر شروع کی اور یزید کی سہ سالہ خلافت کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضا فہ کر دیا ۔ حضرت زینب نے کہا اللہ اور اس کے رسول نے سچ کہا ہے کہ کہ جو برے کام کرت ہیں ان کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ خدا کی نشا نیوں کو جھٹلا رہا ہے ، اور ان کا استخفاف کرتا ہے اور جس طرح مکہ کےبت پرستوں نے جنگ احد میں کچھ شہادت سے خو ش ہو کر گیت گا ئے تھے، تو بھی فرزند ان رسول کی شہادت سے خو ش ہو کر شعر خوانی کر رہا ہے ، اور رسول خودا سے انتقام کی با تیں کر رہا ہے ، تو تیرا یہ حا ل کیوں ہے،اور یہا ں تک نوبت کیسے پہنچی ؟یہ سب تیرے اعمال کی شامت ہے، جو شخص گناہوں پر اصرار کرے گا وہ قرآنی فیصلے تو ہے،تیرا باپ ہے اور وہ جس نے تجھے عراق کا حا کم بن اکر بھیجا ہے اور اس کا باپ ہے تم لوگ فرزندان پغمیبر کو شہید کرتے ہو اور پھر حق صداقت کا نام لیتے ہو،،میں آپ کو ایک ایسی دنیا دیکھو گی جہاں مظلوموں کو مظلوم اور ظالموں کو کامزور کیا جاتا ہے۔ میں آپ کو ایک ایسی دنیا دیکھو گی جہاں ہر کسی کو حق اور عدالت کا حق ملے گا اور میں آپ کو ایک ایسی دنیا دیکھو گی جہاں ایک بھی شہید نہیں ہوگا
کو، یزید، بچ جاو! مجھے اپنے ساتھ نہیں لے جاو! میں آپ کو دنیا میں انصاف ہونے والی ہر چیز کا بدلا لے کر رہوں گی”۔
۔ حضرت بی بی زینب (س) کو ایک قابل ذکر خاتون بنانے کی چند خصوصیات یہ ہیں:
اسلام سے عقیدت: زینب ایک متقی مسلمان تھی جنہوں نے اپنی زندگی قرآن اور پیغمبر اسلام کی تعلیمات کے مطابق بسر کی۔
فکری قابلیت: زینب ایک باشعور خاتون تھیں جو اسلامی قانون اور الہیات پر عبور رکھتی تھیں۔ وہ ایک ہونہار شاعرہ اور خطیب بھی تھیں۔
ہمت اور قیادت: زینب ایک دلیر اور متاثر کن رہنما تھی جو بڑے خطرے کے باوجود بھی اس کے لیے کھڑی رہی جس پر وہ یقین رکھتی تھیں۔
ثابت قدمی: زینب نے کبھی ہمت نہیں ہاری، حتیٰ کہ بے پناہ مشکلات کے باوجود۔ وہ اپنے خاندان اور اسلام کے لیے انصاف کے لیے لڑتی رہیں۔
حضرت بی بی زینب (س) مسلم خواتین اور انصاف اور مساوات کے لیے جدوجہد کرنے والے تمام لوگوں کے لیے رول ماڈل ہیں۔ اس کی زندگی اور مثال یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہمت، عزم اور ایمان کے ساتھ بڑے سے بڑے چیلنجوں پر بھی قابو پانا ممکن حضرت بی بی زینب کا کہنا تھا جنگ کا خطبہ ایک ایسی خطبہ تھی جو دنیا کو تباہ کر دیتی ہے۔ یہ ایک خطبہ تھی جو انصاف اور عدالت کے لیے ایک دعویٰ۔ یہ ایک خطبہ تھی جو ایک ایسی دنیا کی تلاش تھی جہاں مظلوموں کو مظلوم اور ظالموں کو کامزور کیا جاتا ہے حضرت زینب کا مزار مسلمانوں کے لیے ایک مقبول زیارت گاہ ہے، جو دمشق، شام کے جنوبی مضافات میں واقع ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ حضرت زینب (س) کی تدفین ہے، جو پیغمبر اسلام کی نواسی اور علی ابن ابی طالب اور فاطمہ بنت محمد کی بیٹی تھیں۔دمشق میں حضرت زینب کا مزار ایک بڑا کمپلیکس ہے جس میں ایک مسجد، ایک صحن اور کئی دوسری عمارتیں شامل ہیں۔ مسجد کمپلیکس کا مرکزی مرکز ہے، اور یہ وہ جگہ ہے جہاں مسلمان نماز ادا کرنے اور حضرت زینب کو خراج عقیدت پیش کرنے آتے ہیں۔ صحن ایک بڑی کھلی جگہ ہے جہاں لوگ جمع ہو سکتے ہیں اور مل سکتے ہیں۔ کمپلیکس میں بہت سی دوسری عمارتیں بھی ہیں، جن میں ایک لائبریری، ایک میوزیم اور متعدد گیسٹ ہاؤسز شامل ہیں۔حضرت زینب کا روضہ ایک خوبصورت اور پرامن جگہ ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں مسلمان حضرت زینب کی زندگی کے بارے میں جاننے اور ان کی ہمت اور لچک کی مثال پر غور کرنے کے لیے آ سکتے ہیں۔یہ مزار 19ویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ حضرت زینب کی اصل قبر اس جگہ پر 7ویں صدی میں بنائی گئی تھی۔ اس مزار کو صدیوں کے دوران متعدد بار تباہ اور دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے، لیکن یہ ہمیشہ مسلمانوں کے لیے زیارت گاہ رہا ہے۔یہ مزار سنی اور شیعہ دونوں مسلمانوں کے لیے ایک مقبول مقام ہے۔ سنی مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت زینبؓ ایک عظیم خاتون تھیں جنہوں نے بڑے خطرے کے باوجود اپنے ایمان کے لیے کھڑے ہو گئے۔ شیعہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت زینب ایک شہید تھیں جنہیں اپنے عقیدے کی وجہ سے قتل کیا گیا۔حضرت زینب کا مزار دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے امید اور استحکام کی علامت ہے۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ بڑی مصیبت کے باوجود بھی مضبوط رہنا اور صحیح کے لیے لڑنا ممکن ہے۔