ایمان کا مطلب ‘ایمان” کے معنی ہیں، یقین کرنا، تصدیق کرنا، مان لینا۔ اصطلاح شریعت میں ” ایمان” کا مطلب ہوتا ہے ، اس حقیقت کو تسلیم کرنا اور ماننا کہ اللہ ایک ہے، اس کے علاوہ کوئی معبود اور پروردگار نہیں، اس کے تمام ذاتی و صفاتی کمالات برحق ہیں۔ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے آخری رسول اور نبی ہیں، ان کی ذات صادق و مصدوق ہے اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کتاب و سنت کی صورت میں اللہ کا جو آخری دین و شریعت لے کر اس دنیا میں آئے اس کی حقانیت و صداقت شک و شبہ سے بالاتر ہے۔
تکمیل ایمان : محدثین کے نزدیک” ایمان” کے تین اجزاء ہیں: ” تصدیق بالقب” یعنی اللہ کی وحدانیت ، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور دین کی حقانیت میں دل سے یقین رکھنا اور اس یقین و اعتماد پر دل و دماغ کا مطمئن رہنا۔ ” اقرار باللسان” یعنی اس دلی یقین و اعتقاد کا زبان سے اظہار ، اعتراف اور اقرار کرنا۔” اعمال بالجوارح” یعنی دین و شریعت کے احکام و ہدایات کی جسمانی بجا آوری کے ذریعہ اس دلی یقین و اعتقاد کا عملی مظاہرہ کرنا۔ ان تینوں اجزاء سے مل کر ” ایمان” کی تکمیل ہوتی ہے اور جو آدمی اس ایمان کا حامل ہوتا ہے اس کو ” مومن و مسلمان” کہا جاتا ہے۔
ایمان اور اسلام: کیا ایمان اور اسلام میں کوئی فرق ہے یا یہ دونوں لفظ ایک ہی مفہوم کو ادا کرتے ہیں؟ اس سوال کا تفصیلی جواب، تفصیلی بحث کا متقاضی ہے جس کا یہاں موقع نہیں ہے ۔ خلاصہ کے طور پر اتنا بتا دینا کافی ہے کہ ظاہری مفہوم و مصداق کے اعتبار سے تو یہ دونوں لفظ تقریباً ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال ہوتے ہیں لیکن اس اعتبار سے ان دونوں کے درمیان فرق ہے کہ ” ایمان” سے عام طور پر تصدیق قلبی اور احوال باطنی مراد ہوتے ہیں جب کہ ” اسلام ” سے اکثر وبیشتر ظاہری اطاعت و فرمانبرداری مردالی جاتی ہے اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ” وحدانیت، رسالت اور شریعت کو ماننے اور تسلیم کرنے” کا جو باطنی تعلق دل و دماغ سے قائم ہوتا ہے اس کو ” ایمان” سے تعبیر کرتے ہیں اور اس باطنی تعلق کا جو اظہار عمل جوارح کے ذریعہ ظاہری احوال سے ہوتا ہے اس کو ” اسلام” سے تعبیر کرتے ہیں، ایک محقق کا قول ہے تصدیق قلبی جب پھوٹ کر جوارح ” اعضائ” پر نمودار ہوجائے تو اس کا نام ” اسلام” ہے اور اسلام جب دل میں اتر جائے تو ” ایمان” کے نام موسوم ہو جاتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ حقیقت ایک ہے مواطن کے اعتبار سے اس کو کبھی ” ایمان” کہا جاتا ہے اور کبھی ” اسلام” اسی لیے ایمان اور اسلام ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں، نہ تو ایمان کے بغیر اسلام معتبر ہوگا اور نہ اسلام کے بغیر ایمان کی تکمیل ہوگی۔ مثلاً کوئی آدمی پانچوں وقت کی نماز بھی پڑھے، ہر سال زکوٰۃ بھی ادا کرے، استطاعت ہو تو حج بھی کر ڈالے اور اسی طرح دوسرے نیک کام کر کے اپنی ظاہری زندگی کو ” اسلام” کا مظہر بنائے ہوئے ہو مگر اس کا باطن ” قلبی تصدیق و انقیاد” سے بالکل خالی ہو اور کفر و انکار سے بھرا ہوا ہو تو اس کے یہ سارے اعمال بیکار محض قرار پائیں گے اسی طرح اگر کوئی آدمی ایمان یعنی قلبی تصدیق و انقیاد تو رکھتا ہے مگر عملی زندگی میں اسلام کا مظہر ہونے کے بجائے سر کشی و نافرمانی کا پیکر اور کافرانہ و مشرکانہ اعمال کا مجسمہ بنا ہوا ہے تو اس کا ایمان فائدہ مند نہیں ہوگا۔
بعض اہل نظر نے ” ایمان اور اسلام” کی مثال ” شہادتین” سے دی ہے یعنی جیسے کلمہئ شہادت میں دیکھا جائے تو شہادت وحدانیت الگ ہے اور شہادت رسالت الگ ہے۔ لیکن ان دونوں کا ارتباط و اتحاد اس درجہ کا ہے کہ شہادت رسالت کے بغیر شہادت و حدانیت کار آمد نہیں، اور شہادت وحدانیت کے بغیر شہادت رسالت کا اعتبار نہیں۔ ٹھیک اسی طرح ” ایمان” اور ” اسلام” کے درمیان دیکھا جائے تو بعض اعتبار سے فرق محسوس ہوتا ہے لیکن ان دونوں کا ارتباط و اتحاد اس درجہ کا ہے کہ اعتقاد باطنی(یعنی ایمان) کے بغیر صرف اعمال ظاہرہ (اسلام) کھلا ہوانفاق ہیں اور اعمال ظاہرہ کے بغیراعتقاد باطن کفر کی ایک صورت ہے اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایمان اور اسلام دونوں کے مجموعہ کا نام ” دین ” ہے۔
ایمان کا مدار” جاننے” پر نہیں” ماننے” پر ہے: ایمان کے بارے میں اس اہم حقیقت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ تصدیق یعنی ماننے کا نام ایمان ہے نہ کہ محض علم یا معرفت یعنی جاننے کا۔ مطلب یہ کہ ایک آدمی جانتا ہے کہ ” ا اللہ ” ہے اور اکیلا ہے وہی پروردگار اور معبود ہے، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے سچے بندے اور اس کے رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس دین و شریعت اور تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، وہ مبنی برحقیقت و صداقت ہے ۔ مگر وہ آدمی دل سے ان باتوں کو نہیں مانتا ، ان پر اعتقاد نہیں رکھتا، اس کا قلب ان باتوں کے اذعان و قبول سے خالی ہے تو اس آدمی میں” ایمان” کا وجود نہیں مانا جائے گا اس کو مومن نہیں کہا جائے گا۔ مومن تو وہی آدمی ہو سکتاہے جو ان باتوں کو سچ اور حق بھی جانے اور دل سے مانے اور تسلیم بھی کرے۔ جب داعی حق صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت پیش کی تو تمام اہل عرب بالخصوص اہل کتاب (یہود و نصاری) الوہیت کے بھی قائل تھے اور یہ بات بھی خوب جانتے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے سچے اور آخری رسول ہیں اور جو دین و شریعت پیش کر رہے ہیں وہ حق اور سچ ہے۔ مگر ان میں سے جو لوگ حسد و عنادرکھنے کے سبب ان حقائق کو ما نتے اور تسلیم نہیں کرتے تھے ان کے دل و دماغ میں ایمان کا نور داخل نہیں ہوسکا اور وہ کافر کے کافر ہی رہے ، ان حقائق کا ” جاننا ” ان کے کسی کام نہ آیا۔
بعض صورتوں میں ” اقرار باللسان” کی قید ضروری ہے: جن حقائق کو ایمان سے تعبیر کیا جاتا ہے ان کا زبان سے اقرار کرنا گووجود ایمان کے لیے ضروری ہے لیکن بعض حالتوں میں یہ زبانی اقرار (اقرار باللسان) ضروری نہیں رہتا۔ مثلاً اگر کوئی آدمی گونگا ہے اور اس کے قلب میں تصدیق تو موجود ہے لیکن زبان سے کوئی لفظ ادا کرنے پر قادر نہیں ہے تو ایسے آدمی کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اس کا ایمان زبانی اقرار کے بغیر بھی معتبر مانا جائے گا ، اسی طرح کوئی آدمی جانی خوف یا کسی واقعی مجبوری کی بنا پر زبان سے اپنے ایمان کا اقرار نہیں کر سکتا تو اس کا ایمان بھی زبانی اقرار کے بغیر معتبر ہوگا۔
” اعمال” کی حیثیت: وجود ایمان کی تکمیل کے لیے ” اعمال” بھی لازمی شرط ہیں کیونکہ تصدیق قلب اور زبانی اقرار کی واقعیت و صداقت کا ثبوت ” اعمال” ہی ہیں۔ یہی عملی ثبوت ظاہری زندگی میں اس فیصلہ کی نبیاد بنتا ہے کہ اس کو مومن و مسلمان کہا جائے اسی بنا پر یہ حکم ہے کہ اگر کوئی آدمی دعوائے ایمان و اسلام کے باوجود ایسے اعمال کرتا ہے جو خالصتاً کفر کی علامت اور ایمان و اسلام کے منافی ہیں، یا جن کو اختیار کرنے والے پر کافر ہونے کا یقین ہوتا ہے تو وہ آدمی کافر ہی شمار ہوگا اس کے اور ایمان و اسلام کا دعوی غیر معتبر مانا جائے گا۔
مشکوۃ شریف:جلد اول:حدیث نمبر 1