You are currently viewing “سود: اقتصادی بوجھ اور ظلم کا استعارہ”

“سود: اقتصادی بوجھ اور ظلم کا استعارہ”

سود کے لیے عربی زبان اور فقہی اصطلاح میں ربا کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ربا کی لغوی معنی سود یا زیادہ کے ہیں سود کے بارے میں فقہاء نے لکھا کہ

الربا هو الفضل المستحق لاحد المتعاقدين في المعاوضة الخالي عن عوض شرط فيه

سود اس اضافہ کو کہتے ہیں جو دو فریق میں سے ایک فریق کو مشروط طور پراس طرح ملے کہ وہ اضافہ عوض سے خالی ہو۔

مالیاتی نظام میں سود سے مراد وہ اضافی رقم ہے جو رقم لینے والا رقم دینے والے کو اصل رقم کے علاوہ ادا کرتا ہےجسکا انحصار قرض کی مدت اور قرض کی نوعیت اور طے کردہ شرائط پر ہوتا ہے سود دراصل قرض دینے والے کے مال میں اضافے کا سب بنتا ہے وہ اضافہ جو قرض کی اصل رقم پر شرائط کے تحت ٹیکس کی صورت میں متعین ہوتا ہے

دیں الٰہی میں سود کی بھر طریقے سے ممانعت اور مذمت فرمائی ہے کیونکہ یہ ایک طرف تو مالدار کے مال میں اضافے کا سبب ہے لیکن دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو وہ شخص جو پہلے سے کسی محرومی یہ ضرورت کی بنا پر اپنے مقصد یا ضرورت کے حصول کے لیے رقم حاصل کرتا ہے اس پر اصل رقم ادا کرنے کی ساتھ ساتھ اضافی رقم یعنی سود کی ادائیگی کا بوجھ بھی ڈال دیا جاتا ہے

سورہ آل عمران آیت ١٣٠ میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتےہیں اے امن والو سود مت کھاؤ کئی حصے سے زائد اور اللہ سے ڈرو امید ہے کہ تم کامیاب ہوجاؤ

شریعت اسلامیہ میں سود قطعی طور پر حرام اور ممنوعہ ہے اور اسے اللہ اور اسکے رسول سے جنگ کی مترادف قرار دیا گیا ہےقرآن پاک میں کئی مقامات پر سود خوروں کے لیے سخت عذاب کی وعید بھی کی گئی ہے

“جن لوگوں نے سود کھایا، وہ قیامت کے دن اس شخص کی طرح اٹھیں گے جو شیطان کے ہاتھ سے چھوتی بیماری میں مبتلا ہو۔

سورۃ آل عمران، آیت 130 میں ارشاد ہوا “اے ایمان والو! سود کو دوگنا کرکے نہ کھاؤ۔ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔”

سورۃ النساء، آیت ١٦١ ارشاد خداوندی ہے

“اور ان کے سود کھانے کی وجہ سے جنہیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کا مال ناحق کھانے کی وجہ سے ہم نے ان کے لیے دردناک عذاب تیار کیا ہے۔”

درج بالا آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے سود کو مال ناحق اور دوسروں کے ساتھ زیادتی قرار دیتے ہوئے اس سے بچنے کی تلقین اور نہ بچنے کی صورت میں سخت عذاب کی وعید سنائی ہے

اسلامی فقہ کے مطابق، ربا کی دو اہم اقسام ہیں: ربا النسیئہ اور ربا الفضل۔ ربا النسیئہ میں قرض کی مدت میں توسیع کی صورت میں اضافی رقم وصول کی جاتی ہے، جو کہ قرض کی اصل رقم کے علاوہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی نے 1000 روپے قرض دیے اور واپس کرتے وقت 1100 روپے طلب کیے، تو یہ سودی لین دین ہوگا۔ دوسری جانب، ربا الفضل میں ایک ہی قسم کی اشیاء کا تبادلہ مقدار میں غیر متوازن ہوتا ہے، جیسے 1 کلو چینی کے بدلے 2 کلو چینی لینا، جو کہ بھی سودی لین دین کے زمرے میں آتا ہے۔ اسلامی قانون میں ربا کی ممانعت کا مقصد مالیاتی نظام میں برابری اور انصاف کو یقینی بنانا ہے، تاکہ امیر اور غریب کے درمیان فرق کو کم کیا جا سکے اور معاشرتی استحکام کو فروغ دیا جا سکے۔  ربا معاشرت میں انصاف کی کمی اور امتیاز کا باعث بنتا ہے، جس سے امیر افراد مزید امیر ہو جاتے ہیں اور غریبوں کی حالت مزید بگڑ جاتی ہے۔ اس سے معاشرتی عدم توازن پیدا ہوتا ہے اور غریبوں کے لیے مالی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے، جو کہ معاشرتی استحکام کو متاثر کرتا ہے۔ معاشرت میں اس طرح کی عدم توازن کے نتیجے میں غربت میں اضافہ ہوتا ہے اور معاشرتی مسائل پیدا ہوتے ہیں، جو کہ اسلامی تعلیمات کے اصولوں کے برعکس ہیں۔ اس کے علاوہ، ربا کی موجودگی معاشرتی انصاف کی بنیاد کو کمزور کرتی ہے اور مالیاتی نظام میں شفافیت کو نقصان پہنچاتی ہے، جس سے لوگوں کے درمیان اعتماد کم ہوتا ہے اور معاشرتی روابط متاثر ہوتے ہیں۔

اقتصادی طور پر، ربا مالی بوجھ کو بڑھاتا ہے، جو کہ کاروباری سرگرمیوں کو متاثر کرتا ہے اور معیشت کی ترقی کو روک سکتا ہے۔ سودی نظام کی وجہ سے قرض کی واپسی کی مقدار میں اضافے کے نتیجے میں مالی مشکلات پیدا ہوتی ہیں، اور معیشت میں بحران کا سبب بن سکتی ہیں۔ ربا کے اثرات معیشت میں عدم توازن پیدا کرتے ہیں اور مالی بحران کے امکانات کو بڑھاتے ہیں، جو کہ اقتصادی ترقی کو روک سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، سودی نظام معاشرتی استحکام کو بھی متاثر کرتا ہے اور مالیاتی نظام میں عدم توازن پیدا کرتا ہے، جو کہ مجموعی معیشت پر منفی اثر ڈالتا ہے۔

اسلامی مالیاتی نظام میں ربا کے متبادل کے طور پر مختلف طریقے موجود ہیں، جیسے کہ مشارکت، مرابحہ، اور اجارہ۔ مشارکت میں منافع اور نقصان کی بنیاد پر شراکت کی جاتی ہے، جو کہ سود کے بغیر مالی معاملات کو منظم کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ مرابحہ میں اشیاء کی خرید و فروخت پر مبنی مالیاتی معاہدہ کیا جاتا ہے، جس میں سود کی بجائے منافع کی بنیاد پر مالیاتی تعاملات ہوتے ہیں۔ اجارہ میں کرایہ پر مبنی معاہدہ کیا جاتا ہے، جو کہ مالی معاملات کو سود کے بغیر منظم کرتا ہے اور اسلامی مالیاتی اصولوں کے مطابق ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، زکوة اور صدقات بھی ربا کے متبادل ہیں، جو مالی امداد کی صورت میں غریبوں اور مستحقین کی مدد کرتے ہیں۔ اسلامی مالیاتی نظام کے یہ طریقے مالیاتی معاملات میں برابری اور انصاف کو یقینی بناتے ہیں اور معاشرتی استحکام کو فروغ دیتے ہیں۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق، ربا کی حرمت مالیاتی انصاف کی ضامن ہے اور معاشرتی استحکام کو فروغ دیتی ہے۔ قرآن اور سنت کی روشنی میں ربا کی ممانعت ایک متوازن اور منصفانہ مالی نظام کی تشکیل کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے، جو کہ معاشرتی انصاف، اقتصادی استحکام، اور روحانی سکون کو فروغ دیتی ہے۔ ربا کے اثرات معاشرتی اور اقتصادی سطح پر گہرے ہیں، اور اسلامی نظام اس کی جگہ متبادل فراہم کرتا ہے جو کہ سود کے بغیر مالی معاملات کو منظم کرتا ہے۔ اس طرح، اسلامی تعلیمات میں ربا کی ممانعت فلاحی معاشرت کے قیام کی طرف ایک اہم قدم ہے، جو کہ انصاف اور برابری کی بنیاد پر استوار ہے۔