تعارف
حضرت ام سلمہ کا باپ قبیلہ مخزوم کا ایک قابل رشک سردار تھا اور وہ دنیائے عرب کا ایک بڑا معروف بھی تھا۔ لوگ اسے مسافروں کا زاد راہ سمجھا کرتے تھے ، کیونکہ قافلے جب اس کے گھر کی طرف روانہ ہوتے یا اس کی رفاقت میں سفر کرتے تو اپنے ساتھ زاد راہ لے کر نہ جاتے اس لئے کہ سب کے اخراجات یہ خود برداشت کیا کرتے تھے۔ حضرت ام سلمہ بھی ان کے خاوند عبد الله بن عبدالاسد کا شمار ان دس صحابہ کرام میں ہوتا تھا جو سب سے پہلے مسلمان ہوئے۔ ان سے پہلے صرف حضرت ابو بکر اور چند دیگر صحابہ مسلمان ہوئے تھے۔
حضرت ام سلمہ اپنے شوہر کے ساتھ ہی مسلمان ہو گئی تھیں اور ان کا شمار ان صحابیات میں ہوتا ہے جنہیں اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل ہے۔
حضرت ام سلمہ اور آپ کے خاوند اپنا معزز گھرانہ اور عالیشان گھر چھوڑ کر اللہ سبحانہ و تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایک ان دیکھی منزل کی طرف روانہ ہو گئے۔ باوجود یکہ حضرت ام سلمہ پانی اور آپ کے شوہر کو حبشہ کے حکمران نجاشی کی مکمل حمایت حاصل تھی ، پھر بھی ان کی دلی تمنا تھی کہ وہ مبارک گھڑی کب آئے گی کہ جب وہ مرکز نزول وحی مکہ معظمہ بچشم خود دیکھیں گے اور منبع ہدایت حضرت محمد کی زیارت کریں گے۔ یہ تمنا ان کے دل میں سمائی ہوئی تھی۔سر زمین حبشہ میں مقیم مہاجرین کے پاس اس قسم کی خبریں مسلسل آنے لگیں کہ مکہ معظمہ میں مسلمانوں کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ حضرت رہ جزائر بن عبد المطلب اور حضرت عمر بن خطاب کے اسلام قبول کرنے سے مسلمانوں کی قوت میں بے حد اضافہ ہو چکا ہے۔ قریش کی جانب سے ایذا رسانی ختم ہو چکی ہے۔ یہ سن کر مہاجرین نے اطمینان کی سانس لی اور ان میں چند ایک نے مکہ معظمہ واپس جانے کا عزم کر لیا اور کشاں کشاں مکہ معظمہ روانہ ہو گئے۔ ان واپس آنے والوں میں ام سلمہ اور آپ کا شوہر بھی تھا۔لیکن ان واپس آنے والے مسلمانوں کو جلد ہی اس بات کا احساس ہو گیا کہ انہوں نے واپس آنے میں جلد بازی سے کام لیا ہے۔ جو خبریں ان کے پاس پہنچ رہی تھیں ان میں بہت زیادہ مبالغہ تھا۔ صحیح صورت حال یہ تھی کہ جب حضرت حمزہ اور حضرت عمر مسلمان ہوئے تو قریش اور زیادہ بھڑک اٹھے اور انہوں نے مسلمانوں پر مزید ظلم و ستم ڈھانا شروع کر دیے جس سے مسلمانوں کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا
مشرکین نے مکہ مکرمہ میں آباد مسلمانوں کو ایسی دردناک سزائیں دیں جس کی مثال نہیں ملتی اس اندوہناک صورتحال کو دیکھ کر رسول اکرم نے اپنے جانثار صحابہ کرام کو مدیںہ منورہ ہجرت کرجانے کا حکم دیا تو مہاجرین کی پہلے قافلے میں حضرت ام سلمہ اور آپکے شوہر نے شمولیت کا عرض کیا لیکن اس بارحضرت ام سلمہ اور آپ کے شوہر کا مکہ سے ہجرت کرنا اتنا آسان نہ تھا اس دفعہ انہیں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم یہاں مشکلات کی یہ کہانی حضرت ام سلمہ کی زبانی آپ کو سناتے ہیں، اس لئے کہ جس طرح اپنی آپ بیتی وہ خود عمدہ پیرائے میں بیان کر سکتی ہیں، کوئی دوسرا اتنے اچھے اسلوب میں اسے بیان نہیں کر سکتا۔
حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں جب حضرت ابو سلمہ نے مدینہ ہجرت کر جانے کا عزم کر لیا تو انہوں نے مجھے ایک اونٹ پر سوار کیا۔ میرا ننھا بیٹا سلمہ میری گود میں تھا۔ انہوں نے اونٹ کی نکیل پکڑ کر سیدھا چلنا شرع کر دیا۔ ابھی ہم مکہ معظمہ کی حدود سے نکلنے نہ پائے تھے کہ میری قوم بنو مخزوم کے چند افراد نے ہمیں دیکھ لیا اور انہوں نے ہمارا راستہ روک لیا۔
انہوں نے ابو سلمہ سے کہا
اگر تم نے اپنی مرضی کو ہم پر ترجیح دے ہی لی ہے تو اس عورت کو اپنے ہمراہ کیوں لے جا رہے ہو یہ ہماری بیٹی ہے۔ ہم اسے تیرے ساتھ کسی دوسرے ملک جانے کی قطعاً اجازت نہیں دیں گے۔ پھر انہوں نے آگے بڑھ کر مجھے ان کے ہاتھ سے چھین لیا جب میرے سر تاج شوہر کی قوم بنو اسد نے یہ منظر دیکھا کہ مجھے اور میرے بیٹے کو چھین کر لئے جارہے ہیں تو وہ غضبناک ہو گئے
انہوں نے کہا
اللہ کی قسم! ہم تمہارے قبیلہ کی اس عورت کے پاس یہ بچہ نہیں رہنے دیں گے۔ اسے ہمارے قبیلہ کے مرد سے زبر دستی چھین کر لئے جارہے ہو۔
تم یہ ہمارا بیٹا ہے اس پر ہمارا ہی حق ہے ، پھر وہ میرے بیٹے کو مجھ سے چھین کر اپنے ساتھ لے گئے۔ یہ صورت حال میرے لئے ناقابل برداشت تھی۔ ہمارا شیرازہ بکھر گیا۔
شوہر مدینہ روانہ ہو گیا۔ بیٹے کو بنو عبد الاسد اپنے ساتھ لے گئے اور مجھے میری قوم بنو مخزوم نے زبردستی اپنے پاس رکھ لیا۔ ہمارے درمیان پل بھر میں جدائی ڈال دی گئی۔ میں ان روح فرسا صدمات کو برداشت کرنے کے لئے تنہا رہ گئی۔ میں غم غلط کرنے کے لیے ہر صبح اس مقام پر جاتی جہاں جُدائی کا یہ واقعہ پیش آیا تھا میں وہاں بیٹھ کر دن بھر روتی رہتی اور شام کے وقت گھر واپس آجاتی۔
تقریباً ایک سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ میں ایک دن وہاں بیٹھی رو رہی تھی کہ میرا ایک چچا زاد بھائی میرے پاس سے گزرا۔ میرا یہ حال دیکھ کر اسے مجھ پر رحم آگیا اور اسی وقت جاکر میری قوم کے بڑوں سے کہا کہ تم اس مسکین عورت کو کیوں تڑ پارہے ہو۔ کیا تم اس کی حالت نہیں دیکھ رہے کہ یہ اپنے شوہر اور بیٹے کے غم میں کس قدر بےچین ہے۔ آخر اسے ستانے سے تمہیں کیا ملے گا۔ اس بے چاری کو چھوڑ دو اس کی یہ باتیں سن کر ان کے دل نرم ہو گئے۔
انہوں نے مجھ سے کہا ہماری طرف سے اجازت ہے اگر تم چاہو تو اپنے خاوند کے پاس جاسکتی ہو۔
میں نے کہا
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں تو مدینہ چلی جاؤں اور میرا لخت جگر بنو اسد کے پاس ہی رہے؟ تم ہی بتاؤ میرے غم کی آگ کیسے بجھے گی۔ میری آنکھوں کے آنسو کیسے خشک ہوں
گے میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتی کہ اپنے شوہر کے پاس مدینہ چلی جاؤں اور اپنے ننھے بیٹے کو مکہ ہی میں رہنے دوں اور اس کے متعلق مجھے کچھ معلوم ہی نہ ہو! مجھے اس غم میں مبتلا دیکھ کر کچھ لوگوں کے دل میں نرمی پیدا ہو گئی اور بنو اسد سے اس سلسلہ میں بات کی تو وہ بھی راضی ہو گئے اور انہوں نے میرا بیٹا مجھے واپس دے دیا۔
میں نے سوچا کہ اب مجھے فوراً یہاں سے نکل جانا چاہئے کہ کہیں کوئی اور رکاوٹ پیدا نہ ہو جائے۔ میں نے جلدی جلدی تیاری کی بیٹا گود میں لیا اونٹ پر سوار ہوئی اور سوئے مدینہ اکیلی چل پڑی، مخلوق خدا میں بیٹے کے علاوہ کوئی بھی میرے ساتھ نہ تھا۔جب میں مقام تنعیم پر پہنچی تو وہاں عثمان بن طلحہ ملے۔