حضرت انس بن مالک علی سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ایک باغ میں تشریف لے گئے اور میں اس وقت حضور نبی کریم کے ہمراہ تھا اس دوران کوئی آیا اور اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سےفرمایا
اے انس ! دروازہ کھول دو اور آنے والے کو جنت کی دو خوشخبری دو کہ خلافت اس کے لئے ہے۔“ حضرت انس فرماتے ہیں میں نے دروازہ کھولا اور حضرت سیدنا ابو بکر صدیق دروازہ پر موجود تھے۔ میں نے انہیں جنت کی بشارت دی اور بتایا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ خلیفہ ہیں
حضرت انس فرماتے ہیں پھر کچھ دیر بعد دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا
اے انس ! دروازہ کھول دو اور آنے والے کو جنت کی خوشخبری دو کہ ابوبکرکے بعد خلافت اس کے لئے ہے۔
حضرت انس فرماتے ہیں میں نے دروازہ کھولا اور حضرت سیدنا عمر فاروق ی ہے دروازہ پر موجود تھے میں نے انہیں جنت کی بشارت دی اور بتایا وہ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق دنیا کے بعد خلیفہ ہیں۔
حضرت انس فرماتے ہیں پھر کچھ دیر بعد دروازہ کھٹکھٹایا گیا تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
اے انس ! دروازہ کھول دو اور آنے والے کو جنت کی خوشخبری دو کہ عمرکی بعد وہ خلیفہ ہیں ۔“
حضرت انس یہ فرماتے ہیں میں نے دروازہ کھولا تو حضرت سیدنا عثمان غنی ہتھے میں نے انہیں جنت کی بشارت دی اور بتایا وہ حضرت سیدنا عمر فاروق کے بعد خلیفہ ہوں گے۔
امر خلافت کا خوف
حضرت سیدنا عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے کہ میں ایک دن حضرت سیدنا عمر فاروق کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک آپ نے سانس لیا۔ مجھے گمان ہوا کہ شاید آپ کی پسلیاں ہٹ گئی ہیں۔ میں نے دریافت کیا کہ امیر المومنین! آپ کا یہ سانس کسی شر کے خوف سے نکلا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں ! شر کی وجہ سے، میں نہیں جانتا کہ کس طرح اپنے بعد اس امر (خلافت ) کس کے سپرد کر کے جاؤں۔ پھر فرمایا شاید تم اپنے ساتھی کو اس کا اہل سمجھتے ہو؟ میں نے کہا بیشک وہ اپنی سبقت فی الاسلام اور فضیلت کی وجہ سے اس کے اہل ہیں۔ آپ نے فرمایا بے شک وہ ایسے ہی ہیں لیکن وہ ایسے آدمی ہیں کہ ان میں مزاح کی عادت ہے، یہ امر اس کے لئے ہے جو قوی ہو مگر اسمیں اکڑ نہ ہو، نرم ہو مگر اس میں کمزوری نہ ہوغنی ہو مگر فضول خرچ نہ ہو، مال روکنے والا ہو مگر بخیل نہ ہو۔
حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس بیان فرماتے ہیں کہ یہ تمام اوصاف بیک وقت حضرت سیدنا عمر فاروقرض میں موجود تھے۔
خلیفہ اور بادشاہ کا فرق
حضرت سفیان بن ابی عوجا سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا عمر فاروق نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، میں نہیں جانتا کہ میں خلیفہ ہوں یا بادشاہ؟ محفل میں سے ایک شخص نے اٹھ کر کہا کہ امیر المومنین! خلیفہ اور بادشاہ میں بہت فرق ہے، خلیفہ بجز حق کے کچھ نہیں لیتا اور جو کچھ لیتا ہے اسے سوائے حق کے کہیں خرچ نہیں کرتا اور آپ الحمد للہ خلیفہ ہیں بادشاہ تو عوام پر ظلم ڈھاتے ہیں۔
حضرت سید نا عمر کر اس کی بات سن کر خاموش ہو گئے۔ حضرت سلمان فارسی نے کھڑے ہو کر فرمایا اگر آپ نے مسلمانوں کی زمین سے ایک درہم یا اس سے کم و بیش وصول کیا پھر اس کو غیر حق میں استعمال کیا تو آپ بادشاہ ہیں خلیفہ نہیں۔ آپ نے یہ بات سنی تو آپ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہو گئے
حضرت ابو عبیدہ بن الجر کے لئے فکرمند ہونا
حضرت ابو موسی اشعری سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق نے جب ملک شام میں طاعون کی وبا کے متعلق سنا تو آپ نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کو خط لکھا کہ مجھے تمہاری کچھ ضرورت در پیش ہے اس لئے تم میرا خط ملتے ہی فوراً واپس چلے آؤ۔ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح لی اللہ نے جب خط پڑھا تو جوایا آپ کو لکھ بھیجا کہ میں آپ کی ضرورت سمجھ چکا ہوں اس وقت میں اپنے لشکر میں موجود ہوں اور میں خود کو لشکر پر ترجیح نہیں دینا چاہتا، آپ اس کو باقی رکھنا چاہتے ہیں جو باقی رہنے والا نہیں۔ میرا خط آپ کو ملے تو میری معذرت قبول فرما لیں اور مجھے میرے لشکر میں رہنے دیں۔ آپ کو جب خط ملا تو آپ رو دیئے ۔ حاضرین محفل نے پوچھا کہ کیا حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کا وصال ہو گیا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں ! گویا کہ وہ قریب ہی ہیں۔
بغض رکھنے والوں پر فرشتوں کی لعنت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
پہلے اسمان پر 80 ہزار فرشتے ہیں جو اس شخص کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں جو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتا ہے اور دوسرے اسمان پر 80 ہزار فرشتے ایسے ہیں جو اس شخص پر لعنت بھیجتے ہیں جو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتا ہے