You are currently viewing حضرت موسی اور خضرکی ملا قات

حضرت موسی اور خضرکی ملا قات

توریت میں آنحضرت ماہ کے مبعوث ہونے کی بشارت موجود ہے توریت میں لکھا ہوا ہے خداوند تیرا خدا، تیرے درمیان تیرے ہی بھائیوں میں میرے مانند ایک نبی بر پا کرے گا تم اس کی طرف کان دھرو ( استشیا ) میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا، اور جو کچھ میں اس سے کہوں گا وہ سب ان سے کہے گا ۔ (استثنا ) یہ وہ برکت ہے جو موسیٰ مرد خدا نے اپنے وصال سے پہلے بنی اسرائیل کو بخشی اور اس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلوع ہوا اور فاران کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا اور اس کے داہنے ہاتھ میں آتشین شریعت ہوگی ۔ (استثنا )

حضرت موسیٰ کو علم سے بہت محبت تھی اس لئے وہ علم کی تلاش میں رہتے تھے اور وہ بھی خیال کرتے تھے کہ انہیں بہت زیادہ علم حاصل ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے فرمایا تم سے زیادہ علم میرے ایک بندے کے پاس ہے اگر تو جاننا چاہتا ہے تو اس بندے سے ملاقات کر حضرت موسیٰ نے دریافت فرمایا ایسا بندہ کون ہے اور کہاں ہے میں اس سے ملنا چاہتا ہوں ، اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے مقام کی طرف اشارہ کیا جہاں دو دریا آپس میں ملتے ہیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ تلاش کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچے، روایات کے مطابق ان کا نام خضر ہے

خضر بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھایا کرتے تھے حضرت موسیٰ نے خضر سے ملاقات کی ، علیک سلیک کے بعد آپس میں باتیں ہوئیں۔ حضرت موسیٰ نے ان سے اپنا مدعا بیان کیا اور کہا کہ جو علم آپ کے پاس۔ ہے میں سیکھنا چاہتا ہوں اس سلسلے میں آپ میری رہنمائی فرمائیں۔ حضرت خضر نے فرمایا میں جو کچھ کروں آپ مجھ سے نہیں پوچھیں گے، حضرت موسیٰ اس شرط کو مان گئے اور عہد کیا کہ آپ جو کچھ کریں گے میں نہیں پوچھوں گا، اور نہ مداخلت کروں گا۔ حضرت خضر نے پھر فرمایا کہ میں جو کچھ کروں گا آپ صبر نہیں کر سکیں گے۔ حضرت موسیٰ نے فرمایا ، میں صبر کروں گا۔ چنانچہ دونوں روانہ ہوئے اور راستہ طے کرتے رہے دیکھا کہ ساحل سمندر پر کچھ کشتیاں کنارے پر لگی ہوئی ہیں حضرت خضر نے ان کشتیوں کو توڑ ڈالا ، حضرت موسیٰ یہ حرکت برداشت نہ کر سکے آخر پوچھ ہی لیا آپ نے ان غریبوں کی کشتیاں کیوں توڑیں یہ تو سراسر نقصان پہنچانے والا کام ہے ، حضرت خضر نے یاد دلایا کہ کیا میں نے پہلے ہی آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ صبر نہیں کریں گے۔ حضرت موسیٰ نے جواب دیا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے، پھر دونوں آگے چلے تو حضرت خضر نے راستہ میں ایک لڑکے کو جان سے مار ڈالا ۔ اس پر حضرت موسیٰ اور بھی زیادہ پریشان ہو گئے ۔ اور اعتراض کیا حضرت خضر نے فرمایا کہ آپ صبر سے کام نہیں لیں گے۔ پھر دونوں چلتے چلتے ایک گاؤں میں پہنچے یہ جگہ بہت سنسان تھی کچھ لوگ نظر آئے تو حضرت خضر نے ان سے کھانا طلب کیا تو ان لوگوں نے انکار کیا وہاں پر ایک جگہ دیکھا کہ ایک دیوار ہے بوسیدہ اور کمزور ہے کسی بھی وقت گر سکتی ہے آپ نے اس دیوار کی مرمت کی اور اسے مستحکم کر دیا ، اس پر حضرت موسیٰ نے حضرت خضر سے کہا کہ آپ نے یہ دیوار مرمت کی ہم بھوکے پیاسے ہیں اس کام کے لئے آپ مزدوری طلب کر سکتے تھے۔ حضرت خضر نے جواب دیا جو کام خدا کے حکم سے کیا جائے اس کی مزدوری نہیں لی جاتی پھر آپ نے موسیٰ سے فرمایا۔

اے موسیٰ آپ اپنے وعدے پر قائم نہیں رہے اور بار بار پوچھتے رہے اب ہم دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو رہے ہیں جانے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ وہ سب کچھ بتادوں جو میں نے کیا ہے۔ اے موسیٰ میں نے کشتیوں کو اس لئے تو ڑا کہ وہ کشتیاں غریب ملاحوں کی تھیں جن سے وہ روزی کماتے تھے۔ یہاں کا بادشاہ ان کشتیوں کو ان سے چھیننا چاہتا ہے جب ملاحوں کے پاس کشتیاں نہیں رہیں گی تو وہ روزی نہیں کما سکیں گے اس لئے میں نے کشتیاں توڑ دیں بادشاہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں کو نہیں لے گا یہ کشتیاں تھوڑی بہت مرمت کے بعد ٹھیک ہو جائیں گی۔ میں نے لڑکے کو اس لئے مار ڈالا کہ اس کے ماں باپ نہایت نیک اور عبادت گزار ہیں اگر یہ لڑکا اپنی بڑی عمر کو پہنچتا تو زمین پر فتنہ و فساد پھیلاتا اور خلوق خدا کو اذیتیں پہنچاتا اور ماں باپ کو بدنام کرتا اس لئے میں نے اس کا خاتمہ کر دیا۔ آگے چل کر میں نے دیوار مرمت کی اس میں یتیم بچوں کا مال گڑھا ہوا ہے یہ مال بچوں کے باپ نے ان کے لئے رکھ چھوڑا ہے جب بچے بڑے ہوں گے تو گڑھا ہوا مال نکال لیں گے دیوار مرمت نہ کرنے کی صورت میں گر جانے کا اندیشہ ہے اگر دیوار گر جاتی تو یہاں کے اوباش لوگ دیکھ لیتے اور مال ہتھیا لیتے ۔“ حضرت خضر اور حضرت موسیٰ دونوں نے اپنی اپنی راہ لی حضرت موسیٰ اپنی قوم کے پاس گئے اور نیک کاموں کی طرف بلایا۔