وعن عبداللہ بن عمرو قال قال رسول اللہ ﷺ: ((کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل أن یخلق السمٰوات و الأرض بخمسین ألف سنۃ)) قال: ((وکان عرشہ علی الماء)
(سیدناعبداللہ بن عمرو (بن العاصؓ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے (تمام) مخلوقات کی تقدیروں کو لکھا….. اور اس کا عرش پانی پر تھا۔
اسے (امام) مسلم (۲۶۵۳/۱۶ و ترقیم دارالسلام: ۶۷۴۸) نے روایت کیا ہے ۔
امام مالکؒ فرماتے ہیں: “ما أضل من کذب بالقدر، لولم یکن علیھم فیہ حجۃ إلا قولہ تعالیٰ﴿خَلَقَکُمْ فَمِنْکُمْ کَافِرٌ وَّ مِنْکُمْ مُّؤْمِنٌط﴾لکفیٰ بھا حجۃ”
تقدیر کا انکار کرنے والے سے زیادہ کوئی گمراہ نہیں ہے ، اگر تقدیر کے بارے میں صرف یہ ارشادِ باری تعالیٰ دلیل ہوتا: اس نے تمہیں پیداکیا پس تم میں بعض کافر ہیں اور بعض مومن ہیں۔ (التغابن : ۲) تو کافی تھا۔ (کتاب القدر للفریابی : ۲۹۰وسندہ صحیح، الشریعۃ للآجری ص ۲۲۶، ۲۲۷ ح ۵۰۸ و سندہ صحیح)
طاوس تابعی فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے ایک جماعت کو پایا ہے، وہ کہتے تھے: ہر چیز تقدیر سے ہے ۔ (صحیح مسلم: ۲۶۵۵ و ترقیم دارالسلام: ۶۷۵۱)
امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے ابوسہیل بن مالک سے پوچھا: تقدیر کے ان منکروں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا : میری یہ رائے ہے کہ انہیں توبہ کرائی جائے اگر توبہ کرلیں (تو ٹھیک ہے ) ورنہ انہیں تہِ تیغ کردینا چاہئے۔ عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا: میری (بھی) یہی رائے ہے ۔ (موطأ امام مالک ۹۰۰/۲ ح ۱۷۳۰ و سندہ صحیح)