یہ سورۃ النور غزوہ بنو مستلق کے بعد نازل ہوئی تھی اُس میں ایک چھوٹا سا واقع حضرت عایشہ کو پیش آیا تھا جس کی حضرت محمد کی ذات، آپ کی ازواج آپ کے ساتھی اور پورا د بند اس پورے واقع سے بہت ڈسٹرب ہو گئے تھے کسی کو کچھ مجھے نہیں آرہا تھا کہ کیا بولے اور کیا کیا جائے اور خود حضرت عایشہ کو پتہ چلا کہ اُن پر جھوٹا الزام لگایا گیا وہ بھی بہت روتی رہی اور پریشان ہوئیں جب اللہ نے اس واقع کو بنیاد بنا کر اس صورت کو نازل کیا اور اس صورت میں دیے گئے احکام کو فرض قرار دیا تب ہی وہ رب سورۃ نور میں فرماتا ہے.
ترجمہ:
یہ ایک عظیم سورت ہے ہم نے اس کو نازل کیا ہے اور اس کو ( تم پر ) فرض کیا ہے اور ہم نے اس میں روشن آیت نازل کی ہے تا کہ تم نصحیت حاصل کرو (۱:۴۲)
سمجھو وہ رب اس آیت کے شروع میں کہہ رہا ہے کہ ہم نے نازل کیا ہے اس سورت کو جب کہ سارا قرآن اُس ذات کی تعریف سے نازل ہوا ہے وہ رب اس سورہ پر زور اس لیے دے رہا ہے کہ جو بھی بتایا گیا ہے اس سورہ میں وہ عام بات نہ سمجھنا وہ حکم ہے میری طرف سے تمھارے لیے اور یہ احکام ہے ان کو ہم نے تم پر فرض کر دیا ہے مطلب یہ کہ اس میں تمھارے پاس چوائس نہیں ہے کہ دل ہوا کر لیا دل ہوا نہ کیا اس سورہ میں ہر ایک بات تفصیل سے بتائی ہے تا کہ تمہیں اس بات کا شک نہ رہے جائے اور ساتھ ہی وہ رب فرما رہا ہے کہ یہ احکام اگر سمجھ لو تو تمھارے لیے اس میں بہت نصحیت ہے.
ترجمہ:
بدکاری کرنے والی عورت اور بدکاری کرنے والا مرد ( جب ان کی بدکاری ثابت ہو جائے تو دنوں میں سے ہر ایک کو سو درے مارو اور اگرتم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہوتو اللہ کے حکم پر ہرگز ترس نہ آئے اور چاہے کہ ان کی سزا کہ وقت مسلمانوں کی جماعت بھی موجود ہو (۲:۴۲) اب یہاں پر ایک بات ذہین میں رکھنی ہے کہ ہر مرد اور ہر عورت کی بات نہیں ہو رہی اب اس میں دو چیزیں آجاتی ہیں ایک یہ کہ جب بد کردار مرد اور ہا کر داد عورت زیر دستی کسی کے ساتھ بدکرداری کرے یا ز بر دستی کسی کے ساتھ جسمانی تعلق رکھے دوسرا جہاں مرد اور عورت دونوں کی آپس میں رضامندی سے جسمانی تعلقات ہوں اور وہ نا جائز مطلب وہ آپس میں نکاح میں نہ ہو ان دونوں حالات میں رب نے کہا کہ ان کی یہ بدکاری ثابت ہو جاتی ہے تو سو درے مارو ایک کو اور اگر تمہیں پتا ہے کہ وہ ایسے گناہ شامل ہے تو اُن پر ترس نہ کھانا سب کہ سامنے ان کو سزا دینا آگے اس سورت کی آیت میں رب فرماتا ہے.
ترجمہ :
اور جولوگ پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگاتے ہیں اور چار گواہ فراہم نہیں کرتے انہیں ۰۸ ( ایسی ) کوڑے لگاو اور نہ قبول کرو ان کی شہادت کبھی اور ہی ہیں جو فاسق ہیں سوائے اس کے جو تو یہ کر لیں اور اپنی اصلاح کر لیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے ان آیات میں رب فرما رہا ہے کہ وہ عورتیں جو نیک ہیں اگر اُن پر کوئی الزام لگاتا ہے بدکاری کا تو تم آنکھیں بند کر کے سنی سنائی بات پر یقین نہ کر لینا جب تک وہ چار گواہ نہ لے آئے اور او چار لوگ اُس عورت کے حق میں گواہی نہیں دیتے تب تک ادھر ادھر کی سُن کر یقین نہ لر لینا اور وہ لوگ جو جھوٹا الزام لگاتے ہیں اُن کے لیے سزا ہے کہ اُن کو اسی (۰۸) کوڑے مارے جائیں اور پھر بھی ان کی بات پر یقین نہ کرنا جو کسی کے کردار پر الزام لگاتے ہیں چاہے پھر وہ مرد ہو یا عورت پھر اگر وہ اپنے اس حرکت کی تو بہ کرتے ہیں بچے دل سے اور اپنے آپ کو بہتر انسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو بے شک رب معاف کرنے والا ہے اور ان کی توبہ قبول کرنے والا رحمن ہے آگے اس صورت کی آیت ۱۰ میں بتایا گیا ہے.
ترجمہ:
اگر تم پر اللہ کا فضل اور اُس کی مہربانی نہ ہوتی تو بہت سی خرابیاں پیدا ہو جاتی مگر وہ صاحب کرم ہے اور یہ کہ خدا تو بہ کرنے والا حکیم ہے (۲۴:۱۰) جانتے ہو اسلام نے مرد اور عورت کو بہت عزت دی ہے مگر ہم اس بات کو سمجھے کہ اللہ نے جو حکم فرمایا ہے وہ ہماری حفاظت کے لئے فرمایا ہے وہ رب خود فرما رہا ہے اگر میری رحمت نہ ہوتی تو تم بے سکون ہوتے تم اور بہت سی خرابیاں پیدا ہو جانی تھی تمھارے اندر ہی لیکن اُس رب کا بہت فضل ہے کہ وہ اپنے بندے سے بہت محبت کرتا ہے اور رب فرماتا ہے کہ میں تو بہ قبول کرنے والا ہوں وہ رب فرمارہا ہے کہ تمھاری برائیوں کو دور کر دوں گا تم سے لیکن تم تعلق کو مضبط کرو مجھے سے وہ رب بار بار کہتا ہے کہ میں اپنے بندے کی توبہ قبول کرنے والا ہوں بس بندہ میرے پاس آکر مجھ سے التجا تو کرے میں تو معاف کرنے ہی بیٹھا ہوں آگے اس صورت کی آیت ۲۱ میں فرمایا گیا ہے.
ترجمہ:
اے مومنوں شیطان کے قدموں پر نہ چلنا اور جو شخص شیطان کے قدموں پر چلے گا تو شیطان تو بے حیائی کی باتیں اور برے کام ہی بتائے گا اگر تم پر خدا کا فضل اور مہربانی نہ ہوتی تو ایک شخص بھی تم میں سے پاک نہ ہو سکتا (۲۴:۲۱) .
و ہ رب آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے کہ تم سمجھو وہ تمھیں بتارہا ہے کہ شیطان کی بات نہ ماننا کیونکہ شیطان تو ہے ہی 109 تمھارا دشمن وہ تو چاہتا ہے کہ تم بھٹک جاو اور بے حیائی کے کاموں میں لگ جاو شیطان تمھیں حرام چیزیں بہت خوبصورت بنا کر دیکھتا ہے اور جھوٹی امیدیں دلاتا ہے جب کہ اُس ذات نے غیر محرم سے تعلق رکھنا حرام کر دیا ہے لیکن شیطان یہ سب چیزیں بہت خوب صورت بنا کر دکھاتا ہے کہ ہم بھول ہی جاتے حلال اور حرام میں فرق کرنا اور وہ رب جب ہم سے برائی کے کام دور کرتا ہے اور ہمیں احساس دلاتا ہے کہ کون سا رستہ ہی ہے اور کون سا غلط ہے تب بھی ہم اُس ذات سے ہی شکوے کر رہے ہوتے ہیں ایسا کیوں ہوا میرے ساتھ یا مجھے کیوں تکلیف ملی جب کہ وہ رب فرما رہا ہے کہ میرے یہ الفاظ یا مہر بانی نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی پاک نہ ہوسکتا یہ اس ذات کا بہت کرم ہے کہ وہ رب ہمیں اپنے پاس بلاتا ہے ہمیں سجدے کی توفیق دیتا ہے تا کہ ہم اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور اپنے آپ کو پاک صاف کر لیں آگے وہ اس صورت کی آیت ۲۶ میں فرماتا ہے.
ترجمہ:
اور ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لیے ہیں اور نا پاک مرد نا پاک عورتوں کے لیے اور پاک عورت پاک مرد کے لیے اور پاک مرد پاک عورت کے لئے (۲۴:۲۶).
یہ بہت سخت اور در ددینے والی آیات ہیں اُس ذات کی طرف سے کہ ناپاک مرد نا پاک عورتوں کے لیے اور اسی طرح نا پاک عورتیں نا پاک مردوں کے لیے ہوتی ہیں یہاں نا پاک سے مراد ہر وہ کام جو اس رب کو پسند نہیں ہے جیسے بے حیائی کی باتیں کرنا زنا کرنا غیر محرم سے تعلق رکھنا اور پھر اُس تعلق کو برقرار رکھنا اور بہت چیزیں شامل ہوتی ہیں جا اُس ذات کو پسند نہیں ہے پھر ایسے مردوں اور عورتوں کو نا پاک اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ یہ گناہ بار بار کرتے ہیں جب کہ انہیں اس بات کا علم ہو جاتا ہے کہ کیا غلط ہے اور کیا سہی ہے تب ہی اُس ذات نے کہا ہے کہ ایسے مرد اور عورت اپنے اعمال کی طرف دھیان نہیں دیتے مطلب نا پاک عمل کرتے چلے جاتے ہیں اور رب سے معافی بھی نہیں مانگتے اپنے گناہوں کی اور مسلسل گناہ کرتے چلے جاتے ہیں صرف اپنے نفس کو خوش کرنے کے لئے اس لیے رب نے فرمایا ہے. کہ ایسے نا پاک مرد اور ایسے ناپاک عورتوں کو ہی زیب دیتے ہیں اور ناپاک عورتیں ناپاک مردوں کے لئے ہیں آگے اس آیت میں رب فرماتا ہے کہ نیک عورت نیک مردوں کے لیے ہے اور نیک مرد نیک عورتوں کے لیے ہیں اب یہاں نیک سے مراد یہ نہیں کہ پر فیکٹ مرد یا پرفیکٹ عورت یہاں نیک مراد ہر وہ مرد اور ہر وہ عورت ہے جو اپنے ایمان میں محنت کرتے ہیں بار بار گر کر خود کو بچاتے ہیں ایسے نیک مرد اور عورت بہت سوچ سمجھ کر اپنے عمل کرتے ہیں اور اگر اُن سے گناہ ہو بھی جائے تو وہ لوگ فوراً اپنے رب سے رجوع کرتے ہیں ایسے لوگ اُس ذات کو بہت پسند ہوتے ہیں جو اُس کے دیے ہوئے امتحان میں محنت کرتے ہیں نہ کہ شکوے کرتے ہیں.
حاجرہ جاوید