You are currently viewing سیرت النبی ،فتح کی کہا نی صحا بہ کی زبا نی

سیرت النبی ،فتح کی کہا نی صحا بہ کی زبا نی

ابوسفیان بن حارث نے جواب میں میدان جنگ کی جو کیفیت سنائی،وہ یہ تھی: “خدا کی قسم!بس یوں سمجھ لو کہ جیسے ہی ہمارا دشمن سے ٹکراؤ ہوا،ہم نے گویا اپنی گردنیں ان کے سامنے پیش کردیں ،اور انہوں نے جیسے چاہا، ہمیں قتل کرنا شروع کردیا،جیسے چاہا گرفتار کیا،پھر بھی میں قریش کو الزام نہیں دوں گا،کیونکہ ہمارا واسطہ جن لوگوں سے پڑا ہے،وہ سفید رنگ کے تھے اور سیاہ اور سفید رنگ کے گھوڑوں پر سوار تھے، وہ زمین اور آسمان کے درمیان پھر رہے تھے-اللہ کی قسم ان کے سامنے کوئی چیز ٹھہرتی نہیں تھی-” ابورافع ؓ کہتے ہیں ،یہ سنتے ہی میں نے کہا:”تب تو خدا کی قسم وہ فرشتے تھے-” میری بات سنتے ہی ابولہب غصہ میں آ گیا اس نے پوری طاقت سے تھپڑ میرے منھ پر دے مارا- پھر مجھے اٹھا کر پٹخ دیا اور میرے سینے پر چڑھ کر مجھے بے تحاشا مارنے لگا- وہاں میری مالکن یعنی ام فضل بھی موجود تھیں – انہوں نے ایک لکڑی کا پایہ اٹھا کر اتنے زور سے ابولہب کو مارا کہ اس کا سر پھٹ گیا-ساتھ ہی ام فضل نے سخت لہجے میں کہا: “تو اسے اس لیے کمزور سمجھ کر مار رہا ہے کہ اس کا آقا یہاں موجود نہیں -” اس طرح ابولہب ذلیل ہوکر وہاں سے رخصت ہوا-

جنگ بدر میں اس قدر ذلت آمیز شکست کے بعد ابولہب سات روز سے زیادہ زندہ نہ رہا- طاعون میں مبتلا ہوکر مرگیا- اسے دفن کرنے کی جرأت بھی کوئی نہیں کررہا تھا-آخر اسی حالت میں اس کی لاش سڑنے لگی،شدید بدبو پھیل گئی-تب اس کے بیٹوں نے ایک گڑھا کھودا اور لکڑی کے ذریعے اس کی لاش کو گڑھے میں دھکیل دیا- پھر دور ہی سے سنگ باری کرکے اس گڑھے کو پتھروں سے پاٹ دیا

– اس شکست پر مکہ کی عورتوں نے کئی ماہ تک اپنے قتل ہونے والوں کا سوگ منایا-اس جنگ میں اسود بن ذمعہ نامی کافر کی تین اولادیں ہلاک ہوئیں -یہ وہ شخص تھا کہ مکہ میں جب حضور نبی کریم کو دیکھتا تھا،تو آپ کا مذاق اڑایا کرتا تھااور کہتا تھا: “لوگو! دیکھو تو!تمہارے سامنے روئے زمین کے بادشاہ پھر رہے ہیں جو قیصر و کسری کے ملکوں کو فتح کریں گے ” اس کی تکلیف دہ باتوں پر آپ نے اسے اندھا ہونے کی بد دعا دی تھی،اس بد دعا سے وہ اندھا ہوگیا تھا-بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ نے اس کے اندھا ہونے اور اس کی اولاد کے ختم ہوجانے کی بد دعا فرمائی تھی- اللہ تعالٰی نے آپ کی دعا قبول فرمائی، چنانچہ پہلے وہ اندھا ہوا،پھر اس کی اولاد جنگ بدر میں ماری گئی-

جنگ کے بعد آپ نے قیدیوں کے بارے میں مشورہ فرمایا-حضرت ابوبکر ؓ کا مشورہ یہ تھا کہ ان کو فدیہ لے کررہا کردیا جائے- حضرت عمر ؓ کی رائے یہ تھی کہ انہیں قتل کردیا جائے- آپ نے بعض مصلحتوں کے تحت حضرت ابوبکر ؓ کا مشورہ پسند فرمایا اور ان لوگوں کی جان بخشی کردی، ان سے فدیہ لے کر انہیں رہا کردیا- تاہم اس سلسلے میں اللہ تعالٰی نے حضرت عمر ؓ کی رائے کو پسند کرتے ہوئے سورۃ الأنفال کی آیت 67تا70 نازل فرمائی-ان آیات میں اللہ تعالٰی نے واضح کیا کہ ان قیدیوں کو قتل کیا جانا چاہیے تھا-

بدر کے قیدیوں میں حضور نبی کریم کی بیٹی حضرت زینب کے خاوند ابوالعاص ؓ بھی تھے جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے-اس وقت حضرت زینب مکہ میں تھیں -جب زینب کو معلوم ہوا کہ فدیہ لے کر رہا کرنے کا فیصلہ ہوا ہے تو انہوں نے شوہر کے فدیہ میں اپنا ہار بھیج دیا-یہ ہار حضرت زینب کو ان کی والدہ حضرت خدیجہ نے ان کی شادی کے موقع پر دیا تھا-فدیے میں یہ ہار ابوالعاص ؓ کا بھائی لے کر آیا تھا-اس نے ہار حضور کی خدمت میں پیش کیا-ہار کو دیکھ کر آنحضرت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے-حضرت خدیجہ یاد آ گئیں -حضور نے صحابہ کرام سے فرمایا: “تم مناسب سمجھو تو زینب کے شوہر کو رہا کر دو اور اس کا یہ ہار بھی واپس کردو-” صحابہ نے فوراً کہا:”ضرور یا رسول اللہ! چنانچہ ابوالعاص ؓ کو رہا کر دیا گیا اور زینب کا ہار لوٹا دیا گیا-البتہ آپ نے ابوالعاص ؓ سے وعدہ لیا تھا کہ مکہ جاتے ہی وہ زینب کو مدینہ بھیج دیں گے-

انھوں نے وعدہ کرلیا- (یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ حضرت زینب ؓ کی شادی ابوالعاص ؓ سے اس وقت ہوئی تھی جب حضور نے اسلام کی دعوت شروع نہیں کی تھی-جب حضور نے اسلام کی دعوت شروع کی تو مشرکین نے ابوالعاص ؓ پر زور دیا تھا کہ وہ حضرت زینب ؓ کو طلاق دے دیں ،لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا- البتہ ابولہب کے دونوں بیٹوں نے حضور اکرم کی بیٹیوں حضرت رقیہ اور حضرت کلثوم کو طلاق دے دی- ابھی صرف ان کا نکاح ہوا تھا، رخصتی نہیں ہوئی تھی-جب نبی کریم کو معلوم ہوا تھا کہ ابوالعاص ؓ نے مشرکوں کا مطالبہ ماننے سے انکار کردیا ہے تو حضور اکرم نے ان کے حق میں دعا فرمائی تھی-ابوالعاص ؓ غزوہ بدر کے کچھ عرصہ بعد مسلمان ہوگئے تھے-) حضرت زینب کو لانے کے لیے مدینہ منورہ سے حضرت زید بن حارثہ ؓ کو بھیجا گیا- ابوالعاص ؓ نے وعدے کے مطابق انہیں ان کے ساتھ بھیج دیا(اس وقت تک حجاب کا حکم نازل نہ ہوا تھا)اس طرح وہ مدینہ آگئیں -راستے میں کافروں نے رکاوٹ بننے کی کوشش کی تھی،لیکن ابوالعاص کے بھائی ان کے راستے میں آگئے اور مشرک ناکام رہے- قیدیوں میں حضرت خالد بن ولید ؓ کے بھائی ولید بن ولید بھی تھے-انہیں ان کے بھائی ہشام اور خالد بن ولید ؓ نے رہا کرایا- ان کا فدیہ ادا کیا گیا-جب وہ انہیں لے کر مکہ پہنچے تو وہاں انھوں نے اسلام قبول کرلیا-اس پران کے بھائی بہت بگڑے-انھوں نے کہا:”اگر تم نے مسلمان ہونے کا ارادہ کرلیا تھا تو وہیں مدینہ میں کیوں نہیں ہوگئے-