You are currently viewing سیرت النبی ،صحابہ اکرم کی پیارے نبی سے والہانہ محبت

سیرت النبی ،صحابہ اکرم کی پیارے نبی سے والہانہ محبت

لڑائی جاری تھی کہ حضور اکرم ایک گڑھے میں گرگئے، حضرت علی نے آپ کو گرتے دیکھا، انہوں نے آگے بڑھ کر فوراً آپ کو دونوں ہاتھوں پر لے لیا۔ حضرت طلحہ بن عبیداللہ نے آپ کو اوپر اٹھاکر باہر نکالا۔ آپ جب گڑھے میں گرے تو ابن قمیہ نے آپ پر پتھر برسائے، ان میں سے ایک پتھر آپ کے پہلو میں لگا، عتبہ بن ابی وقاص نے بھی آپ کو پتھر مارا۔ اس کا پھینکا ہوا پتھر آپ کے چہرہ انور پر لگا، حضور نبی اکرم کا چہرہ انور لہولہان ہوگیا اور نچلا ہونٹ پھٹ گیا، حضرت حاطب کہتے ہیں کہ میں نے جب عتبہ کو حضور پر پتھر پھینکتے دیکھا تو اس کی طرف لپکا، میں نے اس کا تعاقب کیا اور آخر اسے جالیا، میں نے فوراً ہی اس پر تلوار کا وار کیا، اس وار سے اس کی گردن کٹ کر دور جا گری، میں نے فوراً اس کی تلوار اور گھوڑے پر قبضہ کیا اور حضور نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوگیا، آپ کو عتبہ کے قتل کی خبر سنائی آپ نے ارشاد فرمایا: “الله تم سے راضی ہوگیا، الله تم سے راضی ہوگیا۔ “اس حملے میں حضور اکرم کا خود( لوہے کی ٹوپی ) بھی ٹوٹا، چہرہ مبارک بھی زخمی ہوا، ابن قمیہ کے حملے سے دونوں رخسار بھی زخمی ہوئے تھے خود کی دو کڑیاں آپ کے رخسار مبارک میں گڑ گئی تھی، آپ نے ابن قمیہ کو بددعا دی: “الله تجھے ذلیل کردے اور برباد کردے۔ ” اللہ تعالٰی نے حضور کی دعا قبول فرمائی۔

اس جنگ کے بعد جب ابن قمیہ اپنی بکریوں کے گلّے میں پہنچا تو انہیں لے کر پہاڑ پر چڑھا، وہ بکریوں اور مینڈھوں کو گھیر گھیر کر لے جارہا تھا کہ اچانک ایک مینڈھے نے اس پر حملہ کردیا، اس نے اسے اس زور سے سینگ مارا کہ وہ پہاڑ سے نیچے لڑھک گیا اور اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ جب نبی اکرم کا چہرہ مبارک زخمی ہوا اور خون بہنے لگا تو آپ خون پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے:”وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کے چہرے کو اس لیے خون سے رنگین کردیا کہ وہ انہیں ان کے پروردگار کی طرف بلاتا ہے۔ “حضور اکرم کے چہرہ مبارک میں خود کی کڑیاں گھس گئی تھیں ، حضرت ابو عبیدہ بن جراح ؓ نے اپنے دانتوں سے ان کڑیوں کو کھینچ کھینچ کر نکالا، اس کوشش کے دوران ان کا اپنا سامنے کا دانت ٹوٹ گیا۔ بہرحال کڑی نکل گئی، پھر انہوں نے دوسری کڑی کو دانتوں سے پکڑ کر کھینچا تو ایک دانت اور ٹوٹ گیا تاہم کڑی نکل گئی۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ کے سامنے کے دو دانت ٹوٹ جانے کے بعد ان کا چہرہ بدنما ہوجاتا۔ لیکن ہوا یہ کہ وہ پہلے سے زیادہ خوب صورت ہوگیا

arbi-man-chlao-masjid-com-2

جب یہ خبر مشہور ہوئی کہ آپ کو شہید کر دیا گیا ہے تو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے آپ کو زندہ سلامت دیکھا اور پکارے: “اے مسلمانو! تمہیں خوش خبری ہو، رسول اللہ تو یہ موجود ہیں ۔ “جب مسلمانوں نے حضور کو زندہ سلامت دیکھا تو پروانوں کی طرح آپ کے ارد گرد جمع ہوگئے، آپ ان سب کے ساتھ ایک گھاٹی کی طرف روانہ ہوئے، اس وقت آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت حارث بن صمہ تھے۔ اس روز حضرت زبیر بن عوام ؓ نے بھی زبردست ثابت قدمی دکھائی تھی اور آپ کی حفاظت میں موت کی بیعت کی تھی، یعنی یہ عہد کیا تھا کہ آپ کی حفاظت میں جان تو دے دیں گے، لیکن ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ آپ اپنے ان صحابہ کے ساتھ گھاٹی کی طرف بڑھ رہے تھے کہ عثمان بن عبداللہ ایک سیاہ اور سفید گھوڑے پر سوار آپ کی طرف بڑھا، وہ لوہے میں پوری طرح غرق تھا، آپ اس کی آواز سن کر رک گئے، اسی وقت عثمان بن عبداللہ کے گھوڑے کو ٹھوکر لگی، وہ ایک گڑھے میں گر گیا، ساتھ ہی حضرت حارث بن صمہ ؓ اس کی طرف لپکے اور اپنی تلوار سے اس پر وار کیا، اس نے تلوار کا وار روکا تھوڑی دیر دونوں طرف سے تلوار چلتی رہی، پھر اچانک حضرت حارث نے اس کے پیر پر تلوار ماری، وہ زخم کھا کر بیٹھ گیا حضرت حارث ؓ نے ایک بھرپور وار کرکے اس کا خاتمہ کر دیا، اس پر حضور نبی کریم نے فرمایا:”اللہ کا شکر ہے جس نے اسے ہلاک کردیا۔

عبداللہ بن جابر عامری نے حضرت حارث ؓ پر حملہ کر دیا، اس کی تلوار حضرت حارث ؓ کے کندھے پر لگی، کندھا زخمی ہوگیا ان لمحات میں حضرت ابو دجانہ ؓ نے عبداللہ بن جابر پر حملہ کر دیا اور اپنی تلوار سے اسے ذبح کر ڈالا۔ مسلمان حضرت حارث ؓ کو اٹھا کر لے گئے تاکہ ان کی مرہم پٹی کی جاسکے۔ پھر حضور نبی کریم نے اس چٹان کے اوپر جانے کا ارادہ فرمایا جو گھاٹی کے اندر ابھری ہوئی تھی، لیکن زخموں سے خون نکل جانے اور زرہوں کے بوجھ کی وجہ سے آپ چڑھ نہ سکے، یہ دیکھ کر حضرت طلحہ ؓ آپ کے سامنے بیٹھ گئے اور آپ کو کاندھوں پر بٹھا کر چٹان کے اوپر لے گئے، اس وقت آپ نے فرمایا:”طلحہ کے اس نیک عمل کی وجہ سے ان پر جنت واجب ہوگئی۔ “ان کی ایک ٹانگ میں لنگڑاہٹ تھی، جب یہ آنحضرت کو کندھوں پر اٹھا کر چلے تو چال میں لنگڑاہٹ تھی، اب ان کی کوشش یہ تھی کہ لنگڑاہٹ نہ ہو تاکہ حضور اکرم کو تکلیف نہ پہنچے، آپ کو کندھوں پر اٹھا کر چلنے کی برکت سے ان کی لنگراہٹ دور ہوگئی۔