You are currently viewing سیرت النبی ، قریشی لشکر کے ساتھ با مقابلہ

سیرت النبی ، قریشی لشکر کے ساتھ با مقابلہ

 آخر قریشی لشکر مکہ معظمہ سے نکلا اور مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوا- قریش کے لشکر میں عورتیں بھی تھیں – عورتیں بدر میں مارے جانے والوں کا نوحہ کرتی جاتی تھیں – اس طرح یہ اپنے مردوں میں جوش پیدا کررہی تھیں ،انہیں شکست کھانے یا میدان جنگ سے بھاگ جانے پر شرم دلا رہی تھیں –

ریش کی جنگی تیاریوں کی اطلاع حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس نے بھیجی- انہوں نے یہ اطلاع ایک خط کے ذریعے بھیجی- خط لے جانے والے نے تین دن رات مسلسل سفر کیا اور یہ خط آپ ﷺ تک پہنچایا- آپ ﷺ اس وقت قبا میں تھے حضور اقدس ﷺ قبا سے مدینہ منورہ پہنچے اور صحابہ کرام سے قریشی لشکر سے مقابلے کے سلسلے میں مشورہ کیا، حضور ﷺ کی رائے یہ تھی کہ قریش پر شہر سے باہر حملہ کرنے کے بجائے شہر میں رہ کر اپنا دفاع کیا جائے،چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا:”اگر تمہاری رائے ہو تو تم مدینہ منورہ میں رہ کر ہی مقابلہ کرو،ان لوگوں کو وہیں رہنے دو،جہاں وہ ہیں ،اگر وہ وہاں پڑے رہتے ہیں تو وہ جگہ ان کے لیے بدترین ثابت ہوگی اور اگر ان لوگوں نے شہر میں آ کر ہم پر حملہ کیا تو ہم شہر میں ان سے جنگ کریں گے اور شہر کے پیچ و خم کو ہم ان سے زیادہ جانتے ہیں – “آپ ﷺ نے جو رائے دی تھی،تمام بڑے صحابہ کرام کی بھی وہی رائے تھی- منافقوں کے سردار عبداللہ ابن اُبی نے بھی یہی مشورہ دیا- یہ شخص ظاہر میں مسلمان تھا اور اپنے لوگوں کا سردار تھا-

دوسری طرف کچھ پرجوش نوجوان صحابہ اور پختہ عمر کے صحابہ یہ چاہتے تھے کہ شہر سے نکل کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے- یہ مشورہ دینے والوں میں زیادہ وہ لوگ تھے جو غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے اور انہیں اس کا بہت افسوس تھا- وہ اپنے دلوں کے ارمان نکالنا چاہتے تھے،چنانچہ ان لوگوں نے کہا:”ہمیں ساتھ لے کر دشمنوں کے مقابلے کے لیے باہر چلیں تاکہ وہ ہمیں کمزور اور بزدل نہ سمجھیں ،ورنہ ان کے حوصلے بہت بڑھ جائیں گے اور ہم تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ ہمیں دھکیلتے ہوئے ہمارے گھروں میں گھس آئیں اور اے اللہ کے رسول!جو شخص بھی ہمارے علاقے میں آیا،ہم سے شکست کھاکر گیا ہے،اب تو آپ ہمارے درمیان موجود ہیں ،اب دشمن سے کیسے ہم پر غالب آسکتا ہے؟”حضرت حمزہ رضی االلہ عنہ نے بھی ان کی تائید کی- آخر آپ ﷺ نے ان کی بات مان لی-

battle-chalo-masjid-com

پھر آپ ﷺ نے جمعہ کی نماز پڑھائی اور لوگوں کے سامنے وعظ فرمایا- انہیں حکم دیا:” مسلمانو! پوری تن دہی اور ہمت کے ساتھ جنگ کرنا،اگر تم لوگوں نے صبر سے کام لیا تو اللہ تعالیٰ تمہیں فتح اور کامرانی عطا فرمائیں گے،اب دشمن کے سامنے جاکر لڑنے کی تیاری کرو- “لوگ یہ حکم سن کر خوش ہوگئے- اس کے بعد آپ ﷺ نے سب کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی- اس وقت تک ارد گرد سے بھی لوگ آگئے تھے- پھر آپ ﷺ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر ا کے ساتھ گھر میں تشریف لے گئے- ان دونوں نے آپ ﷺ کے سر پر عمامہ باندھا اور جنگی لباس پہنایا- باہر لوگ آپ ﷺ کا انتظار کر رہے تھے اور صفیں باندھے کھڑے تھے- اس وقت حضرت سعد بن معاذ اور حضرت اسید بن حضیر ا نے مسلمانوں سے کہا:”رسول اللہ ﷺ کی مرضی شہر میں رہ کر لڑنے کی تھی،تم لوگوں نے انہیں باہر نکل کر لڑنے پر مجبور کیا بہتر ہوگا،تم اب بھی اس معاملے کو ان پر چھوڑ دو-

حضورﷺ جو بھی حکم دیں گے،ان کی جو بھی رائے ہوگی، بھلائی اسی میں ہوگی،اس لئے حضور ﷺ کی فرمابرداری کرو- ” باہر یہ بات ہورہی تھی،اتنے میں حضور ﷺ باہر تشریف لے آئے- آپ ﷺ نے جنگی لباس پہن رکھا تھا،دوہری زرہ پہن رکھی تھی- ان زرہوں کا نام ذات الفضول اور فضہ تھا- یہ آپ ﷺ کو بنی قینقاع سے مال غنیمت سے ملی تھیں – ان میں سے ذات الفضول وہ ذرہ ہے کہ جب حضور ﷺ کا انتقال ہوا تو یہ ایک یہودی کے پاس رہن رکھی ہوئی تھی،حضرت ابوبکر صدیق نے یہودی کی رقم ادا کرکے اسے واپس لیا تھا- زرہیں آپ نے لباس کے اوپر پہن رکھی تھیں – اس وقت ان نوجوانوں نے عرض کیا:”اللہ کے رسول!ہمارا مقصد یہ نہیں تھا کہ آپ کی رائے کی مخالفت کریں یا آپ کو مجبور کریں ،لہٰذا آپ جو مناسب سمجھیں ،وہ کریں – ” اس پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:”اب میں ہتھیار لگا چکا ہوں اور کسی نبی کے لیے ہتھیار لگانے کے بعد ان کا اتار دینا اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ اللہ تعالی اس کے اور دشمنوں کے درمیان فیصلہ فرمادے-

آپ ﷺ نے اس موقع پر تین پرچم بنوائے- ایک پرچم قبیلہ اوس کا تھا- یہ حضرت اسید بن حضیر کے ہاتھ میں تھا- دوسرا پرچم مہاجرین کا تھا،یہ حضرت علی یا حضرت مصعب بن عمیر کے ہاتھ میں تھا- تیسرا پرچم قبیلہ خزرج کا تھا،یہ حباب بن منذر یا حضرت سعد بن عبادہ کے ہاتھ میں تھا اس طرح آنحضرت ﷺ ایک ہزار کا لشکر لے کر روانہ ہوئے- لشکر میں آپ ﷺ کے آگے سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ ا چل رہے تھے- یہ دونوں قبیلہ اوس اور خزرج کے سردار تھے۔ آپ ﷺ نے مدینہ منورہ میں ایک نابینا صحابی حضرت عبداللہ بن ام مکتوم کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا،مدینہ منورہ سے کوچ کرکے آپ ﷺ ثنیہ کے مقام پر پہنچے- پھر یہاں سے روانہ ہوکر شیخین کے مقام پر پہنچے، شیخین دو پہاڑوں کا نام تھا- یہاں آپ ﷺ نے لشکر کا معائنہ فرمایا اور کم عمر نوجوانوں کو واپس بھیج دیا- یہ ایسے نوجوان تھے جو ابھی پندرہ سال کے نہیں ہوئے تھے- ان کم سن مجاہدوں میں رافع بن خدیج اور سمرہ بن جندب ا بھی تھے، لیکن پھر آپ ﷺ نے حضرت رافع کو جنگ میں حصہ لینے کی اجازت دے دی- یہ دیکھ کر حضرت سمرہ بن جندب نے کہا: “آپ نے رافع کو اجازت دے دی جب کہ مجھے واپس جانے کا حکم فرمایا،حالانکہ میں رافع سے زیادہ طاقت ور ہوں – ” اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:”اچھا تو پھر تم دونوں میں کشتی ہوجائے- “دونوں میں کشتی کا مقابلہ ہوا،سمرہ بن جندب نے رافع بن خدیج کو پچھاڑ دیا- اس طرح انہیں بھی جنگ میں حصہ لینے کی اجازت ہوگئی-

Leave a Reply