سیرت النبی،حضرت عمر اسلام لاتے ہیں

اس طر ح حضر ت ابو سلمہ نے بھی اپنی بیو  ی حضرت ام سلمہ کے ساتھ ہجرت کی ان کے نا م یہ ہیں عبدالرحمن ابن عو ف حضرت عثما ن ابن مظعون حضرت سہیل ابن بیصا حضرت زبیر ابن العوام حضرت عبدا للہ ابن مسعود کفا ر کو جب ان کی ہجرت کا پتہ چلا تو وہ ان کے تعا قب کر نے کے لئے دوڑے لیکن وہ سب پہلے ہی ہو ائی جہا ز پر سو ار ہو چکے تھے یہ جہا ز تا جروں کے تھے اس طر ح یہ سب لو گ حبشہ پہنچے میں کا میا ب ہو گئےکچھ عرصے بعد انہو ں نے غلط خبر سنی کی قریش کے تما م کا فر مسلما ن ہو گئے ہیں اس اطا ع کے بعد بہت سے مسلما ن حبشہ سے روانہ ہو گئے مکہ کے لئے لیکن نزدیک پہنچ کر پتا چلا کہ یہ خبر غلط تھی اب انہو ں نے حبشہ جا نا منا سب نہ سمجھا اور کسی نہ کسی کی پنا ہ حاصل کر کے مکہ میں دا خل ہو گئے

پنا ہ حا صل کر نے والے ان مہا جرین پر جب مسلما ن بھا ئیوں نے پہلے سے بھی زیا دہ ظل و ستم ہو تے دیکھا تو انہیں گوا رہ نہیں تھا کہ ہم پنا ہ کی وجہ سے اس ظلم سے محفو ظ رہیں لہذا انہو ں نے اپنی اپنی پنا ہ لو ٹا دی اور کہا کہ اپنے بھا ئیو ں کے سا تھ ظلم و ستم کا سا منا کریں گے

حضرت عمر اس وقت تک اسلا م دشمنی پر کمر با ندھے ہو ئے تھے ایک روز وہ مکہ کی ایک گلی سے گزرے تھے کہ ان کی ملا قات ایک قریشی شخص سے ہو ئی اس کا نا م حضرت نعیم ابن عبد اللہ تھایہ اس وقت تک اپنی قوم کے خوف سے اپنے اسلا م کو چھپا ئے ہو ئے تھے حضرت عمر کے ہا تھ میں تلو ار تھی پر یشا ن ہو گئے ان سے پو چھا کہ کیا ارادہ ہے وہ بو لے :

محمد کو قتل کر نے جا رہا ہو ں (نعوذبااللہ ) یہ سن کر حضرت نعیم نے کہا پہلے اپنے گھر کی خبر لو تمھا ری بہن اور بہنو ئی مسلما ن ہو چکے ہیں

یہ سن کر حضرت عمر جلا ل میں آگئے بہن کے گھر کا رخ کیا حضر ت عمر کی بہن کا نا م با طمہ تھا ان کے شو ہر سعید بن زید تھے یہ عشرہ مبشرہ میں سے شا مل ہیں حضرت عمر کے چچا زاد بھا ئی بھی تھے ادھر حضرت سعید کی بہن حضرت عمر کی بیو ی تھیں

بہن کے دروازے پر پہنچ کر انہوں نے دستک دی اندر سے پو چھا گیا کو ن ہے انہو ں نے نا م بتا یا تو اندر ایک لخت خا مو شی چھا گئی اندر انہین اس وقت خبا ب بن ارت قر آن پڑھا رہے تھے انہوں نے فو را قر آن کے اوارق چھپا دیئے حضرت فا طمہ نے اٹھ کر دروازہ کھو لا حضرت عمر فو را بو لے

اے اپنی جا ن کی دشمن میں نے سنا ہے تو بے دین ہو گئی ہے سا تھ ہی انہو ں نے ما را ان کے جسم سے خو ن بہنے لگا خو ن دیکھ کر بو لیں عمر تم کچھ بھی کر لو میں مسلما ن ہو چکی ہو ں اب حضرت عمر نے پو چھا یہ کو ن سی کتا ب تم پڑھ رہے ہو مجھے دیکھا و

حضرت فا طمہ بو لیں یہ کتا ب تمھا رے ہا تھ میں ہر گز نہیں دی جا سکتی کیو ں کہ تم نا پا ک ہو پہلے غسل کر لو پھر دیکھا ئی جا سکتی ہے آخر انہو ں نے غسل کیا پھر قر آن مجید کے اوارق دیکھے جیسے ہی ان کی  نظر ﷽ پر پڑھی ان پر ہیبت طا ری ہو گئی آگے سو رہ طہ تھی اس کی ابتدائی آیا ت پڑھ کر ان کی حا لت غیر ہو گئی بو لے

مجھے رسول اللہ ﷺ کے پا س لے چلو حضرت خبا ب بن ارت اور حضرت سعید ادھر ادُھر چھپے ہو ئے تھے ان کے یہ الفا ظ سن کر ما منے آگئے بعض روایا ت میں آتا ہے کہ حضرت سعید کو بھی حضرت عمر نے ما را تھا اس کا مطلب ہے کہ حضرت خبا ب بن ارت چھپے ہو ئے تھے

بہر حا ل اس مو قع پر وہ سا منے آگئے اور بو لے اے عمر تمھیں مبا رک ہو اللہ کے نبی نے دعا ما نگی تھی کہ اے اللہ دو آدمیو ں کے ذرئعےاسلا م کو عزت عطا فر ما ئی یا تو عمرہ بن ہشا م کے ذرئعے یا عمر کے ذریعے

ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فر ما یا ان دنو ں میں سے جو تمھیں محبو ب  ہو اسے اسلا م کی عزت عطا فر ما  آپ ﷺ نے یہ دعا بد ھ کے روز ما نگی تھی جمعرات کے روز یہ واقعہ پیش آیا حضرت خبا ب بن ارت اور حضرت سعید بن زید انہیں دار ارقم لے گئے

دروازے پر دستک دی گئی اندر سے پو چھا گیا کو ن ان سے پو چھا گیا عمر بن خطا ب یہ با ت حضور اکر م ﷺ کو بتا ئی گئی کہ عمر بن خطا ب آئے ہیں تو رسول اکرم ﷺ نے فر ما یا  دروازہ کھو ل دو اگر اللہ پا ک نے اس کے ساتھ خیر کا ارادہ فر ما یا ہے تو یہ بھلا ئی پا لے گا

دروازہ کھو لا تو حضرت حمزہ نے انہیں اندر آنے کی اجا زت دی پھر دو صحا بہ کے انہیں دائیں با ئیں سے پکڑ کر اندر پہنچا یا آپ ﷺ نے فر ما یا انہیں چھو ڑ دو انہو ں نے حضرت عمر کو چھو ڑ وہ نبی کر یم ﷺ کے سامنے بیٹھ گیا آپ ق نے ان کے کر تے کا دامن پکڑ کر اپنی طر ف کھینچا اور فر ما یا :ْ

اے ابن خطا ب اللہ کے لئے ہد ایت کا راستہ اختیا کرو انہو ں نے فو را کہا کہ میں گو اہی دیتا ہو ں کی اللہ کے سوا کو ئی معبو د نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں ان کے یہ الفا ظ سنتے ہی نبی کر یم ق اور مسلما نو ں نے خو شی سے بے تا ب ہو کر اس قدر زور سے تکبیر کہی مکہ کے گو شے گو شے تک یہ آواز پہنچی آپ ﷺ نے تین با ر ان کے سینے پر ہا تھ ما ر کر فر ما یا

کتا ب کے تا لیف عبداللہ فا رانی