You are currently viewing رحمان بن عوف: محبت و سخاوت کی حقیقی تصویر

رحمان بن عوف: محبت و سخاوت کی حقیقی تصویر

جس طرح مختلف غزوات کے موقع پرحضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ ہمیشہ پیش پیش رہے اورجسمانی طورپرتکالیف اورہرقسم کی صعوبتیں ومشقتیں برداشت کرتے رہے اس سے بھی بڑھ کرقابلِ ذکر ٗاِن کی وہ قربانیاں  اور وہ خدمات ہیں جو ہمیشہ ہرموقع پریہ اپنے ’’مال ودولت‘‘کے ذریعے انجام دیتے رہے،رسول اللہ ﷺ نے ان کیلئے جودعائے خیروبرکت فرمائی تھی اس کے نتیجے میں دیکھتے ہی دیکھتے بڑی سرعت کے ساتھ ان کے مال میں خیروبرکت کے آثارخوب نظرآنے لگے تھے، خوب فراوانی اورخوشحالی تھی، اللہ کے دئیے ہوئے اس مال میں سے عبدالرحمن بن عوفؓ ہمیشہ اللہ کے بندوں کی فلاح وبہبودکی خاطر نیزاللہ کے دین کی سربلندی کی خاطر خصوصاًمختلف غزوات کے موقع پرخوب دل کھول کر،اوربڑی ہی سخاوت وفیاضی کے ساتھ مال ودولت خرچ کرتے رہے اوریوں راہِ حق میں جسمانی قربانیوں کے ساتھ ساتھ مالی قربانیوں کی بھی ایک طویل داستان رقم کرگئے۔

خصوصاً سن ۹ہجری میں پیش آنے والے تاریخی غزوۂ تبوک کے موقع پرجب قحط کازمانہ چل رہاتھا،مال واسباب ٗ اسلحہ ٗ خوارک ٗ غرضیکہ ہرلحاظ سے بڑی تنگی و عسرت کاسامناتھا  اس موقع پرحضرت عبدالرحمن بن عوف ؓنے دوسو اُوقیہ خالص سونا بطورِ تعاون پیش کیا تھا اور پھر یہ لشکر رسول اللہ ﷺ کی زیرِقیادت مدینہ سے اپنی منزلِ مقصودیعنی ’’تبوک‘‘ کی جانب رواں دواں ہوگیا،یہ طویل ترین مسافت طے کرنے بعد جب یہ لشکرتبوک پہنچا تو وہاں ایک اوربہت بڑی فضیلت وسعادت عبدالرحمن بن عوف ؓ کی منتظرتھی۔ ہوایہ کہ ایک روزجب فجر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا، رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کی غرض سے کچھ دور تشریف لے گئے تھے، جبکہ اسلامی لشکرمیں موجودسب ہی افراد وہاں نماز باجماعت کی غرض سے موجودتھے ایسے میں یہ اندیشہ پیداہونے لگاکہ کہیں نمازِ فجر کا وقت نہ نکل جائے،اب سب ہی لوگ تشویش میں مبتلاہوگئے، کچھ لوگوں نے اصرار کیا کہ ہمیں نماز قضاء نہیں کرنی چاہئے، رسول اللہ ﷺ کو شاید کسی وجہ سے تاخیر ہوگئی ہے، اگر آپؐ کواس بات کا علم ہوگا کہ ہم سب نے محض آپؐ کے انتظار میں نمازقضاء کردی ہے ،تویقینا آپؐ ناراض ہوں گے، لہٰذا ہمیں اب نمازپڑھ لینی چاہئے۔ جبکہ دیگرکچھ لوگوں کااصراریہ تھا کہ ہمیں بہر صورت رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرنا چاہئے یہی صورتِ حال جاری تھی کہ اس دوران کچھ لوگوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ سے امامت کیلئے خوب اصرار کیا اور پھر تقریباً زبردستی انہیں امامت کیلئے آگے بڑھادیا، جس پرحضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کی امامت میں نمازباجماعت کا آغازہوا۔

اسی دوران رسول اللہ ﷺ بھی تشریف لے آئے اورتب آپؐ نے دیگرتمام افرادکی طرح عبدالرحمن بن عوف ؓ کی اقتداء میں ہی اُس روز نمازِ فجر ادا کی اوریوں اس تاریخی ’’غزوۂ تبوک‘‘کے موقع پریہ اتنی بڑی سعات بھی ان کے حصے میں آئی۔ رسول اللہ ﷺ کے مبارک دورمیں یوں ہمیشہ ہی آپؐ کے ساتھ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ کایہ تعلقِ خاطر ٗیہ محبتیں اورقربتیں اسی طرح برقرار رہیں اوراسی کیفیت میں شب و روز کایہ سفرجاری رہا۔ رسول اللہ ﷺ کے مبارک دورمیں حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ ہمیشہ نہایت ذوق وشوق اوراہتمام والتزام کے ساتھ آپؐ کی خدمت میں حاضری ٗ خدمت گذاری ٗ علمی استفادہ ٗ اورکسب ِفیض میں مشغول ومنہمک رہے اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی طرف سے بھی ان کیلئے محبتوں اورعنایتوں کامبارک سلسلہ ہمیشہ جاری رہا،آپؐ تادمِ آخران سے انتہائی مسرورومطمئن رہے یہاں تک کہ اسی کیفیت میں رسول اللہ ﷺ کامبارک زمانہ گذرگیا۔

عہدِنبوی کے بعداب خلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے دورِخلافت میں بھی انہیں دینی ٗ علمی ٗ معاشرتی ٗ سیاسی ٗ غرضیکہ ہرحیثیت سے بڑی اہمیت حاصل رہی اورانہیں حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے خاص دوست ٗ قریبی ساتھی ٗ اورمشیرِخاص کی حیثیت سے دیکھاجاتارہا۔مکہ شہرمیں دینِ اسلام کے بالکل ابتدائی دنوں میں حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی دعوت وکوشش کے نتیجے میں ہی توحضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ مشرف باسلام ہوئے تھے،لہٰذاان دونوں جلیل القدرشخصیات میں گہری محبت وقربت یقینافطری چیزتھی۔اورپھرخلیفۂ دوم حضرت عمربن خطاب ؓ کے دورِخلافت میں بھی حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کی یہی حیثیت اورممتازومنفردمقام ومرتبہ برقراررہا، یہی وجہ تھی کہ حضرت عمرؓ جب نمازِفجرکی امامت کے دوران قاتلانہ حملے کے نتیجے میں شدیدزخمی ہوگئے تھے،تب انہوں نے فوری طورپرنمازمکمل کرنے کی غرض سے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو اپنی جگہ آگے بڑھادیاتھا۔ نیزاس موقع پرحضرت عمرؓ کومسجدسے گھرمنتقل کئے جانے کے بعد ٗاُن کی نازک حالت کے پیشِ نظر ٗ اکابرِصحابہ میں سے متعددشخصیات نے جب یہ اصرارکیاتھاکہ ’’اے امیرالمؤمنین آپ اپناکوئی جانشین مقررکردیجئے‘‘تب آپؓ نے جن چھ افرادکے نام گنواتے ہوئے یہ تاکید کی تھی کہ یہی چھ افرادباہم مشاورت کے بعدآپس میں سے ہی کسی کومنصبِ خلافت کیلئے منتخب کرلیں  ان چھ افرادمیں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ بھی شامل تھے۔

اورپھراسی پراکتفاء نہیں  بلکہ مزیدیہ کہ ان چھ جلیل القدرشخصیات پرمشتمل اس ’’مجلسِ شوریٰ‘‘کی سربراہی کیلئے حضرت عمرؓ نے ان میں سے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کو منتخب کیا تھا۔  یوں حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کو خود رسول اللہ ﷺ کے مبارک زمانے میں ٗ نیزاس کے بعدخلیفۂ اول ٗ اورپھرخلیفۂ دوم کے زمانۂ خلافت میں بھی اس معاشرے میں انتہائی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھاجاتارہا نیز حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی وہی کیفیت اوروہی معمولات جاری رہے  کہ   دینِ اسلام اورمسلمانوں کی دینی وعلمی ٗ سماجی ٗ اوربالخصوص مالی خدمات کے معاملے میں ہمیشہ پیش پیش رہے زمانۂ جنگ کے موقع پراسلامی لشکرکی تیاری کیلئے گراں قدرعطیات پیش کیاکرتے زمانۂ امن اورعام حالات میں عام مسلمانوں کی فلاح وبہبودکیلئے انتہائی سخاوت وفیاضی ٗانسان دوستی ٗ اوردریادلی کامظاہرہ کیا کرتے۔ایک ایساوقت بھی آیاکہ جب یہ بات تمام لوگوں میں ضرب المثل بن گئی کہ مدینہ شہرمیں ہرکسی انسان کاضرورکسی نہ کسی شکل میں عبدالرحمن بن عوفؓکے مال کے ساتھ تعلق ہے   کیونکہ ان کایہ معمول تھاکہ مدینہ شہرمیں جوخوشحال اورصاحبِ حیثیت افرادتھے ٗان کیلئے یہ وقتاًفوقتاً خیرسگالی اورباہمی اخوت و محبت کے اظہارکے طورپرہدایاوتحائف روانہ کیا کرتے، ضرورت مندوں کوروپیہ پیسہ بطورِقرض دیاکرتے جوناداراورمفلس قسم کے لوگ تھے ٗ بڑے پیمانے پرصدقات وخیرات کے ذریعے ہمیشہ ان کی مددواعانت کیاکرتے تھے الغرض اُس دورمیں مدینہ شہرمیں آبادہرشخص کاعبدالرحمن بن عوف ؓ کے مال ودولت کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں تعلق ضرورتھا،ہدایاو تحائف ٗقرض ٗ اوریاپھر صدقہ وخیرات کی شکل میں ۔