You are currently viewing تروایح سے متعلق مسا ئل
Problems related to Taraweeh

تروایح سے متعلق مسا ئل

کیا تراویح میں مقتد ی ہا  تھ میں قرآن پکڑ کر تلا وت سن سکتا ہے ؟

اما مت کا حق کسے ہے اس با ت کو سمجھیں تو اس سوال کا جواب باسانی سمجھ سمجھ سکتے ہیں ۔ نبی ﷺ فر ما تے ہیں :

تر جمہ : لو گو ں کی اما مت وہ کرے جو اللہ کی کتاب کو زیادہ پڑھنے والا ہو ۔یہاں قرآن زیا دہ پڑھنے سے مرا د قرآن زیا دہ یا ہو بلکہ بعض روایت میں اکژ کا لفظ آیا ہے آپ ﷺ فر ماتے ہیں :

تم میں سے جس کو سب سے زیادہ قرآن یا د ہو وہ اما مت کرائے ۔ اور صحیح بخاری کی ایک روا یت میں و ضا حت کے سا تھ اس بات کا ذکر ہے ۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب پہلے مہا جرین رسول اللہ  ﷺ  کی ہجرت سے بھی پہلے قباء کے مقام میں عصبہ میں پہنچے تو ان اما مت  ابو  حذیفہ کے غلا م سالم ؑ کیا کر تے تھے آپ کو قرآن مجید سب سے زیادہ ٰیا د تھا (صحیح البخاری :692) اس حدیث کی روشنی میں ہمیں بطور خا ص ایسے آدمی کو اما م کے لئے متعین کر نا چا ہیئے جو حا فظ قرآن ہو اور بہتر طریقے سے پڑھتا بھی ہو اور بہتر طر یقے سے یا د بھی ہو اس طر ح اما م متعین کر نے پرا ما م کے پیچھے کسی مقتدی کو اپنے ہا تھ میں قرآ ن اٹھا نے کی ضرورت نہیں پڑھے گی اور امام کے پیچھے مقتوی کا اپنے ہا تھ میں قرآن اُٹھا نے کی کو ئی دلیل بھی نہیں ملتی ہے ظاہر سے با ت ہے اس عمل کی وجہ سے مقتدی کا ایک ہا تھ سینے سے اُٹھ جا ئے گا جکہ نما ز میں دایاں ہا تھ بائیں ہا تھ پر بند ھا ہو نا چا ہیئے اسی طر ح نظر سجدے کی بجا ئے قرآن پر ہو گی اور دھیان بھی قرآن سے سننے اور ورق پلٹنے میں سمیٹ جا ئے گا اگر کہیں مجبو ری میں کسی اما م کی تروایح کے لئے قرآن دیکھنے کی ضرورت پڑھ جا ئے تو امام خو د اپنے ہا تھ میں قرآن لے سکتا ہے سیدہ عائشہ ؑکا غلا م ذکو ان قرآن لے کر اما مت کرتا تھا (بخا ری ) گو یا  اس معالمہ میں اصل یہ ہی ہے   کہ بغیر دیکھے نما ز میں قرآن کی تلا وت کی جا ئے تا ہم ضرورت کے وقت اما م کے لئے اس کی گنجا ئش ہے ۔

ہم سے سنا ہے کہ مقتدی تروایح کے دوران ہا تھ میں قرآن پکڑکر امام کی تلا وت سن سکتا ہے جبکہ بعض منع بھی کرتے ہیں  اس میں کیا صحیح کیا  ہے ؟

اما م کے لئے گنجا ئش ہے  کہ اس کو اگر زیا دہ قرآن یا د نا ہو تو یاتھ میں لے کر تلا وت کرے  یہ عمل بھی بہتر نہیں ہے تا ہم مجبوری میں اس کی گنجا ئش ہے لیکن جماعت میں موجود کوئی مقتدی اپ نے یا تھ میں قرآن اٹھا ئے  اور قران ،ین دیکھتا  رہے نما ز کے لئے یہ عمل صحیح نہیں ہے اس  لئے مقتدی کو ایسا نہیں کرنا چاہیے  بس امام کے لئے مجبوری کی گنجائش ہے   وہ اس لئے کہ ہمیں دلیل ملتی ہے جو صحیح بخاری میں ہے  ۔

اگر کوئی عورت ترا و  یح کی نما ز جما عت سے پڑ ھا ئے تو تلا وت کے پہلے سے ﷽  کو بلند آواز میں پڑھنا چا ہیے نا آہستہ بھی پڑ ھ سکتے ہیں  ؟

اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جہا ں چند عورتیں جمع ہو سکے وہا ں کوئی تراویح کی نما ز ادا کرا دے  اور نما ز پڑھنے والی عورت درمیان صف میں کھڑی ہو گئی  تروایح کی نماز میں عورت جہرا تلا وت کر سکتی ہے تا ہم آس پڑوس میں غیر محرم ہوں تو تلاوت کی آواز کچھ دھیمی کر لے  تا کہ مر دوں تک آواز نہ جا ئے یا ایسی جگہ نما زپڑھی جا ئے جہاں سےتلا وت کی آواز مردوں تک نہ جا ئے اور سورت سے پہلے ﷽ کو آہستہ پڑھی جا ئے ﷽ جہرا نہیں پڑھا جائے  اس مسئلہ میں را حج قول یہی ہے ۔

اگر اکیلے میں کوئی تراویح میں قرآن پڑ ھ رہا ہو وہا ں کوئی لقمہ دینے والا مو جو د نہ ہو اور کسی آیت پر  مشا بہ لگ جا ئے یا بھول جا ئے تو کیا پا س رکھے قرآن سے دیکھ سکتا ہے یا پھر وہاں ہی اینڈ کر دے با قی نما ز پڑھے اور بعد میں وہا ں سے دیکھ کر اگلی رکعت میں پڑ ھ لے ؟

اگر نماز میں قرآن  پڑھتے ہوئے قرآن بھول جا ئے تو قرآن کھول کر نہیں دیکھنا ہے کیو نکہ اس میں قرآن اٹھا نے کے لئے اگے پیچھے چلا پڑے گا اور قرآن کھول کر ڈھونڈنا پڑے گا وہ و ہیں سے تلا وت بند کر کے رکوع کر لے اور آخر میں سجدہ سہو کر لے ۔ حا لت قیا م قرآن پڑ ھنا مسنون  ہے واجب نہیں ہے  اس لئے اس جگہ سجدہ سہو بھی وا جب نہیں ہے فقط مسنون ہے سلا م پھیر کر قرآن دیکھنا ہو تا کہ ا  س سے آگے کی تلا وت کر سکے تو اس میں کو ئی حر ج نہیں ہے ۔ اور یہا ں یہ بھی مسئلہ وا ضح رہے کہ اس جگہ اگر ایسا آدمی مو جود ہو  جا نما ز میں شا مل نہ ہو اور وہ قرا ت بھولنے پر لقمہ دینا چا ہے تو وہ لقمہ دے سکتا ہے اور نما ز اپنی قرا ت درست کر سکتا ہے ۔

تر اویح کے بعداگر  ہم رات میں اور نوا فل پڑ ھنا چا ہتے تو زیا دہ سے زیا دہ کتنے پڑ ھ سکتے ہیں اور کم از کم کتنے ؟

تعدا کے اعتبا ر سے اگر رات میں  عبا دت کرتے ہیں تو گیا رہ رکعت مسنون ہے کیسا کہ نبی ﷺ رمضا ن میں گیا رہ رکعا ت قیا م کیا کرتے تھے لیکن اگر آپ اس سے زیا دہ بھی قیا م اللیل کرتے یا اس سے کم بھی کرتے ہیں تو کو ئی مسئلہ نہیں  ہے جس قدر سہولت ہو آپ کم زیا دہ قیا م کر سکتے ہیں آپﷺ کا فرا ما ن ہے کہ را ت کی نما ز دو دو رکعت ہے  اس لئے آپ رات میں دودو رکعت کر کے جتنی رکعت پڑ ھنا چا ہیں آپ پڑ ھ سکتی ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ یا د رکھیں کہ  و تر سب آخر میں ادا کر یں ۔

نما زتروایح کی دعا کس حد یث سے ثا بت ہے یا نما ز تر اویح کی دو رکعت کے بعد کو ئی دعاپڑھنی ہو تی ثا بت نہیں ہے دو رکعت پڑ ھ کر سلا م پھیریں گے اپنی طرف سے کچھ ذکر لیتے ہیں تو کو ئی حرج نہیں ہے لیکن ترا ویح کی کو ئی مخصو ص دعا نہیں ہے

تحفہ رمضا ن سے اقتباس