You are currently viewing نور سرور کونین آقائے دو جہاں رحمت کونومکاں

نور سرور کونین آقائے دو جہاں رحمت کونومکاں

خالق کائنات مالک ہر دو جہاں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم کو تمام تر کائنات کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔ اللہ ربّ العزت نے آپ کی ہستی کو ایسا بنایا ہے کہ نہ اس سے پہلے ایسا کوئی بنایا ہے نہ بعد میں کوئی بنائے گا۔ آپکی ہستی سب سے اعلیٰ و اجمل، سب سے افضل و اکمل، سب سے ارفع وانور، سب سے  آعلم و احسب اور سب سے انسب ہے صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ تمام صفات مل کر بھی آقائے دو جہاں کی شان کے شانہ بشانہ نہیں ،اگر سارے جہاں کے جن و انس ملکر بھی خاتم النبین حضرت محمد  کی شان اقدس اور سیرت طیبہ کے بارے میں لکھنا شروع کریں تو زندگیاں ختم ہو جائیں مگر رسالت م آب کی شان کا کوئی ایک باب بھی مکمل نہیں ہو سکے گا۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے ’’اے محبوب   ہم نے  آپ کے ذکر کو بلند کر دیا ہے۔جس ہستی کا ذکر مولائے کائنات بلند کرے،جس ہستی پر اللہ تعالیٰ کی ذات درود و سلام بھیجے، جس ہستی کا ذکر اللہ جو کہ رحمن و رحیم ہے ساری  آسمانی کتابوں میں کرے، جس ہستی  کی زندگی کا ہر ہر پہلو انکا چلنا ،پھرنا ،اٹھنا، بیٹھنا،سونا، جاگنا،کروٹ بدلنا، کھانا، پینا۔ مومنین کیلئے باعث نجات، باعث شفاء، باعث رحمت ،باعث ثواب،باعث حکمت، باعث دانائی ہو، اور اللہ رب العزت کی ذات نے  آپ کی ذات اقدس کو مومنین کیلئے باعث شفاعت بنا دیا ہو، اس ہستی کا مقام اللہ اور اسکا رسول ہی جانتے ہیں۔ پھر اس ہستی کے متعلق سب کچھ لکھنا جن و انس کے بس کی بات نہیں۔اللہ تعالیٰ نے رسول کریم کو بے شمار اور بیش بہاخصوصیات  سے نوازے ہے جن کو لکھنا تو در کنار سارے جہان کے جن و انس مل کر گن بھی نہیں سکتے۔  آپ کی ذات اقدس الفاظ اور ان کی تعبیرات سے بہت بلند وبالا تر ہے

muhammad-s-a-w-chalo-masjjid-com-1

 آپکی ہستی تمام کائنات کے حسن کا مجموعہ ہے، روایت کے مطابق  آپ کا قد نہ زیادہ لمبا تھا نہ پست ، ماتھا کشادہ تھا، سر بہت خوبصورتی کے ساتھ بڑا تھا،  آپ کے بال نیم گھنگریالے تھے،  آپ کی بھوئیں گول خوبصورت تھیں جہاں وہ ملتی ہیں وہاں بال نہ تھے وہاں ایک رگ تھی جو کہ غصے میں پھڑکتی تھی،  آنکھ مبارک کے بارے میں ہے کہ  آپ کی  آنکھیں لمبی، خوبصورت،  سرخ ڈوروں سے مزین تھیں، موٹی اور سیاہ، سفیدی انتہائی سفید،  آپ کی پلکیں بڑی دراز،  آپ کی ناک مبارک  آگے سے تھوڑا اٹھا ہوااور نتھنوں سے باریک ، ایک نور کا ہالہ تھا جو ناک پر چھایا رہتا تھا ،  آپ کے ہونٹ انتہائی خوبصورت تراشیدہ، تھوڑے دہانے کی چوڑائی کے ساتھ ، دانت بڑے خوبصورت اور متوازی اور ان میں کسی قسم کی کوئی بے ربطگی نہ تھی، انتہائی باہم مربوط، پہلے چار دانتوں میں خلاء تھا، جب  آپ مسکراتے تو دانتوں سے نور نکلتا ہوا سامنے پڑتا تھا، گال مبارک نہ پچکے ہوئے نہ ابھرئے ہوئے ، چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ہوا گول تھا، داڑھی مبارک گھنی تھی۔

ام مبارک رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’ میں نے ایک نوجوان دیکھا بڑا صاف ستھرا، حسین سفید چمکتا چہرہ، جیسے کلیوں میں ایک تازگی ہوتی ہے ۔

رسول اللہ  کا رنگ چمکتا تھا نوخیز کلیوں کی طرح، اورفرماتی ہیں نہ  آپ ایسے موٹے تھے کہ نظروں میں جچے نہیں اور نہ ایسے دبلے اور کمزور تھے کہ بے ر عب ہوجائیں  آپ وسیم وقسیم تھے (عربی زبان میں وسیم بھی خوبصورت کو کہتے ہیں اور قسیم بھی خوبصورت کو کہتے ہیں وسیم وہ خوبصورت ہوتا ہے جسے جتنا دیکھیں اس کا حسن اتنا بڑھتا ہے جیسے دیکھتے ہوئے  آنکھ نہ بھرے ، قسیم اسے کہتے ہیں جس کا ہر عضو الگ الگ حسن کی ترجمانی کرتا ہو، جس کا ہر عضو حسن میں کامل اور اکمل ہو )۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم کو سراج منیرکا لقب دیا یہ لقب صرف  آپ کو ہی دیا گیا، جس کا مطلب ہے ’’ روشن چراغ ‘‘  آپ نبوت کا روشن  آفتاب ہیں۔ اور اس  آفتاب کی کرنیں سب سے پہلے اصحاب رسول پر پڑی پھر تمام دنیا پر پھیل گئیں۔اور پھر اںہی کرنوں کی بدولت دنیا کے تمام خطے پر دین اسلام پھیل گیا۔ اور ان کرنوں نے  ہر ہر گوشے میں ہدایت اور حق کا نور پھیلایا۔

علامہ قرطبی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت محمد  کے حسن و جمال میں سے بہت تھوڑا سا ظاہر فرمایا اگر سارا ظاہر فرماتے تو  آنکھیں اس کو برداشت نہ کرسکتیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا سارا حسن ظاہر کیا لیکن رسول اللہ  کے حسن کی چند جھلکیاں دکھائی گئیں اور باقی سب مستور رہیں، کوئی  آنکھ ایسی نہ تھی جو اس جمال کی تاب لا سکتی، اس لئے ہم وہی کچھ کہتے ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے  آپ  کو دیکھ کر ہم تک پہنچایا۔ براء بن عازب کی اس بات کو حضرت حسان بن ثابت شاعر رسول اللہ نے ان الفاظ میں بیان کیا

muhammad-shaan-chalo-masjid-com

’’ آپ جیسا حسین میری  آنکھ نے نہیں دیکھا ، آپ جیسے جمال والا کسی ماں نے نہیں جنا ،  آپ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے ،  آپ ایسے پیدا ہوئے جیسے  آپ نے خود اپنے  آپ کو چاہا ہو۔ ‘‘ یہاں شاعر کا حسن تخیل اتنی بلندی پر گیا ہے کہ قیامت تک  آنے والے نعت خواں وہاں تک نہیں پہنچ سکتے ،ساری دنیا کا نعتیہ کلام ایک پلڑے میں اور یہ ایک مصرع دوسرے پلڑے میں ہو تو اس کا وزن زیادہ ہے۔

 غرض یہ کہ مولائے کائنات سیدالانبیا حضرت محمد مصطفیٰ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے ہی ہم دنیا و  آخرت میں کامیاب و کامران ہو سکتے ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے قلوب میں اپنی اور اپنے محبوب حضرت محمد  کی محبتانتہائی بلندیوں پر پہنچا دے کہ جہاں کوئی دوسرا نہ پہُںچ سکے  اور ہمیں نبی کریم  کی سیرت و کردار اور  انکی دکھائی ہوئی راہ کو اپنا کر دین اسلام کی تبلیغ و سربلندی کے قابل بنا دے جو کہ ہمارے معاشرے کی اصلاح کا ذریعہ بن جائے،آمین ثمہ آمین یا رب العالمین۔