You are currently viewing “معاذ بن جبل: راہنمائی کا بے مثال ذریعہ”

“معاذ بن جبل: راہنمائی کا بے مثال ذریعہ”

رسول اللہ ﷺ کامبارک دورگذرجانے کے  بعدخلیفۂ اول حضرت ابوبکرصدیق ہمیشہ حضرت معاذبن جبل کے ساتھ انتہائی عزت واحترام سے پیش آتے رہے،نیزامتِ مسلمہ اورملک وملت کی بہتری کیلئے ان کی علمی استعدادسے خوب استفادہ کرتے رہے،اورپھریہی کیفیت خلیفۂ دوم حضرت عمربن خطاب کے زمانۂ خلافت میں بھی جاری رہی۔ خلیفۂ دوم کے زمانۂ خلافت میں ایک بارایساہواکہ ملکِ شام میں ان کی طرف سے مقررکردہ والی(گورنر)یزیدبن ابی سفیانؓنے ان کے نام خط میں یہ پیغام تحریرکیاکہ’’اے امیرالمؤمنین!شام بہت وسیع وعریض علاقہ ہے،یہاں اب مسلمانوں کی تعدادبھی بہت بڑھ چکی ہے،لہٰذایہاں ایسے افرادکی شدیداورفوری ضرورت ہے جودینی تعلیم وتربیت اوررہبری ورہنمائی کافریضہ سرانجام دے سکیں ‘‘ اس پرحضرت عمرؓ نے اپنے ساتھیوں میں سے پانچ افرادکے ساتھ اس سلسلے میں مشورہ کیا،اوراس مشاورت کی غرض سے انہی پانچ افرادکے انتخاب کی وجہ یہ بیان کی کہ ’’آپ حضرات کاتبینِ وحی میں سے ہیں

،لہٰذامیں نے ضروری سمجھاکہ میں اس سلسلے میں آپ حضرات سے ہی مشاورت کروں ‘‘وہ پانچ افرادیہ تھے: حضرت معاذبن جبل حضرت عبادہ بن الصامت ۔حضرت اُبی بن کعب ۔ حضرت ابوایوب انصاری حضرت ابوالدرداء اورپھران حضرات کے سامنے مدعیٰ بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ ’’ملکِ شام میں ہمارے مسلمان بھائی اللہ کے دین کاعلم سیکھنے کی غرض سے ہم سے مددکے طلبگارہیں ،لہٰذامیں آپ حضرات سے اس سلسلے میں مددکاطلبگارہوں ، آپ حضرات باہم مشاورت کے بعدآپس میں سے ہی کسی تین پراتفاق کرکے مجھے آگاہ کردیجئے‘‘ اور پھر مزید فرمایا’’آپ حضرات اگرچاہیں توآپس میں قرعہ اندازی بھی کرلیں پھربھی اگربات نہ بن سکی توپھرمیں خودہی آپ میں سے تین کاانتخاب کرلوں گا‘‘ اس پروہ حضرات بولے’’قرعہ اندازی کی توکوئی ضرورت ہی نہیں ہے،کیونکہ ابوایوب کافی عمررسیدہ ہوچکے ہیں ،اُبی بن کعب اکثربیماررہتے ہیں ، باقی رہ گئے ہم تین‘‘تب حضرت عمرؓ نے فرمایا’’ٹھیک ہے،آپ تینوں حضرات ملکِ شام کی جانب روانہ ہوجائیں ،ابتداء میں آپ تینوں وہاں ’’حِمص‘‘میں خدمات انجام دیجئے گا،اورجب وہاں کی صورتِ حال آپ حضرات کوقابلِ اطمینان محسوس ہو،تب آپ تینوں میں سے کوئی ایک وہیں رہ جائے،ایک دِمَشق منتقل ہوجائے،اور ایک فِلَسطین چلاجائے۔

isalmi-man-chalo-masjid-com

چنانچہ یہ تینوں حضرات (حضرت معاذبن جبل ، حضرت عبادہ بن الصامت اورحضرت ابوالدرداء )جن کاشماررسول اللہ ﷺ کے بہت ہی جلیل القدراورعالی مرتبت صحابۂ کرام میں ہوتاتھا خلیفۂ وقت حضرت عمربن خطاب کی اس ہدایت پرعمل کرتے ہوئے اس طویل سفرپر(مدینہ سے ملکِ شام) روانہ ہوگئے۔پہلے یہ تینوں ’’حِمص‘‘ پہنچے، جہاں کچھ عرصہ یہ تینوں ہی خدمات انجام دیتے رہے،اور پھر باہمی مشورے سے حضرت عبادہ بن الصامت کووہیں چھوڑا،جبکہ حضرت ابوالدرداء وہاں سے دِمَشق کی جانب اورحضرت معاذبن جبل فِلَسطین کی جانب روانہ ہوگئے۔یہ اُس دورکی بات ہے جب مسلمان روئے زمین کی دونوں عظیم ترین قوتوں یعنی سلطنتِ فارس اورسلطنتِ روم کے خلاف بیک وقت مختلف محاذوں پر برسرِپیکار تھے،یہ دونوں قوتیں مسلمانوں کے ہاتھوں اب رُوبہ زوال ہورہی تھیں ،ان کی شان وشوکت اورجاہ وجلال کاسورج رفتہ رفتہ اب ماند پڑتا جا رہاتھا سلطنتِ فارس کے خلاف محاذپرپہلے حضرت خالدبن ولیدؓ اورپھرحضرت سعدبن ابی وقاص سپہ سالاری کے فرائض انجام دے رہے تھے،جبکہ سلطنتِ روم کے خلاف محاذپرپہلے حضرت خالدبن ولیدؓ اوراب حضرت ابوعبیدہ بن الجراح سپہ سالاری کے فرائض انجام دے رہے تھے۔

چنانچہ حضرت معاذبن جبل جب حِمص سے فِلسطین پہنچے تب سپہ سالارحضرت ابوعبیدہ بن الجراح بھی وہیں تھے،جنہوں نے ان کی وہاں آمدپرنہایت مسرت کا اظہار کیا،اورانتہائی گرمجوشی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا،پرانے ساتھی مل بیٹھے ،اوریوں ہنسی خوشی دن گذرنے لگے۔ لیکن اس کے بعدمحض کچھ عرصہ ہی گذراتھاکہ فلسطین کاتمام علاقہ مشہورومعروف طاعون’’عمواس‘‘کی لپیٹ میں آگیا جس کے نتیجے میں بہت بڑے پیمانے پرہلاکتیں ہوئیں ،حتیٰ کہ وہاں موجودصرف اسلامی لشکرمیں سے جو افراداس کی لپیٹ میں آنے کی وجہ سے دیکھتے ہی دیکھتے لقمۂ اجل بن گئے ان کی تعدادپچیس ہزارتھی جن میں سے بہت بڑی اکثریت حضرات صحابۂ کرام کی تھی اور پھر اسلامی لشکر کے سپہ سالار یعنی خود حضرت ابوعبیدہ بن الجراح بھی اس طاعون کانشانہ بن گئے،اورانتقال کرگئے۔تب ان کی نمازِجنازہ حضرت معاذبن جبل نے پڑھائی۔

حضرت ابوعبیدہ بن الجراح کے انتقال کے بعدخلیفۂ وقت حضرت عمربن خطاب نے ان کی جگہ فوری طورپرحضرت معاذبن جبل کواسلامی لشکرکاسپہ سالار مقرر کردیا،یعنی اب تعلیم وتربیت کے علاوہ سپہ سالاری کے فرائض بھی انہیں سونپ دئیے گئے،یوں وہاں فلسطین میں ان کی ذمہ داریاں مزیدبڑھ گئیں ۔ لیکن بہت جلدہی یہ خودبھی اسی جان لیوااورمہلک ترین وباء سے متأثر ہوگئے،اور پھر بس دیکھتے ہی دیکھتے دنیاسے منہ موڑگئے۔یوں وہاں فلسطین میں ،اپنے شہرمدینہ سے بہت دور،رسول اللہ ﷺ کی مسجدسے بہت دور، اور مسجد قبلتین (جہاں ان کاخاندان ’’بنوسَلَمَہ‘‘آبادتھا) سے بہت دور اُس پردیس میں جہاں وہ محض اللہ کے دین کی خدمت اورنشرواشاعت کی خاطر گئے تھے، اللہ کے بندوں کواللہ کادین سکھانے کی غرض سے وہاں پہنچے تھے جوکہ یقینامقدس ترین فریضہ ہے ، بلکہ ’’پیشۂ پیغمبری‘‘ہے،اللہ کی رضاکی خاطریہی مقدس ترین فریضہ سرانجام دیتے ہوئے ، رسول اللہ ﷺ کے یہ انتہائی جلیل القدرصحابی حضرت معاذبن جبل ۱۸ھ؁میں محض اڑتیس سال کی عمرمیں ٗاس جہانِ فانی سے کوچ کرتے ہوئے اپنے اللہ سے جاملے۔اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں ان کے درجات بلندفرمائیں ، نیزہمیں وہاں اپنے حبیب ﷺ اورتمام صحابۂ کرام کی صحبت ومعیت کے شرف سے سرفرازفرمائیں ۔