” تقویٰ “پيدا کرنے کے لئے خوفِ خدا کا ہونا بھی اشدضروری ہے ليکن خوف کو اتنا نہ بڑھايا جائے کہ اميد ہی ختم ہو کر رہ جائے۔ايک حديث کے مطابق ايمان،خوف اور اميد کے درميان ہے ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ايک مشہور قول ہے کہ :۔
“اگر اللہ تعالٰی کی طرف سے يہ اعلان کيا جائے کہ جنت ميں صرف ايک ہی شخص داخل کيا جائے گا توميں کہوں گا کہ وہ شخص ميں ہی ہوں ۔ليکن اگر يہ اعلان ہو جائے کہ دوزخ ميں صرف ايک ہی آدمی داخل ہو گا تومجھے انديشہ ہو گا کہ وہ آدمی کہيں ميں ہی نہ ہوں۔”
خوفِ خدا کےلئے آخرت،موت اور قبر کافکر ضروری ہے۔ايک شخص کو ميں نے ديکھا کہ مرغ ذبح کرتے ہوئے رو رہا تھا اور ساتھ ہی يہ کہہ رہا تھا کہ بے زبان اور غير مکلف چيز مرتے ہوئے اگر اتنی تکليف ميں مبتلا ہے تو گناہ گار انسانوں کا کيا حال ہو گا۔
سرکارِ دوعالم صلی اللہ عليہ وسلم کے بارے ميں ايک روايت ہے کہ جب آسمان پر بادل چھا جاتے تو آپ کا چہرہ متغير ہو جاتا اور آپ خوفِ خدا سے کبھی گھر سے باہرآتےاورکبھی اندر جاتے۔جب بارش ختم ہوجاتی توآپ مسرورہوجاتے۔
فطرتِ ا نسانی ميں يہ بات د اخل ہے جب ا سے کسی بات کا خوف ہو تو عمل کی قو ت اس ميں تيز سے تيز تر ہو جاتی ہے۔البتہ خوف کی توعتيتں بدلتی رہتی ہيں۔
اسلام بھی اپنے ماننے والوں کو ايک غائب ہستی کی باز پُرس سے ڈرنے کی تلقين کرتا ہے۔اس خوف کا اثر يہ ہے کہ کسی پوليس يا محتسب کی غير موجودگی ميں بھی انسان ايسا کام کرنے سے رک جاتا ہے جس سے اسکےرب کی نافرمانی ہوتی ہواورخلق خدا کوضرر کاانديشہ ہو۔