سنہ 3 ھجری 17 رمضان المبارک مقام بدر میں تاریخ اسلام کا وہ عظیم الشان یادگار دن ہے جب اسلام اور کفر کے درمیان پہلی فیصلہ کن جنگ لڑی گئی جس میں کفار قریش کے طاقت کا گھمنڈ خاک میں ملنے کے ساتھ اللہ کے مٹھی بھر نام لیواؤں کو وہ ابدی طاقت اور رشکِ زمانہ غلبہ نصیب ہوا جس پر آج تک مسلمان فخر کا اظہار کرتے ہیں۔
13 سال تک کفار مکہ نے محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے، ان کا خیال تھا کہ مُٹھی بھر یہ بے سرو سامان ‘سر پھرے’ بھلا ان کی جنگی طاقت کے سامنے کیسے ٹھہر سکتے ہیں، لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
اللہ کی خاص فتح ونصرت سے 313 مسلمانوں نے اپنے سے تین گنا بڑے لاؤ و لشکر کو اس کی تمام تر مادی اور معنوی طاقت کے ساتھ خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا۔
اس دن حضور ﷺ نے یہ دعا فرمائی تھی۔
’’اے اﷲ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ اپنا وعدہ اور اقرار پورا کر، یا اﷲ! اگر تیری مرضی یہی ہے (کہ کافر غالب ہوں) تو پھر زمین میں تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا‘‘۔
اسی لمحے رب کائنات نے فرشتوں کو وحی دے کر بھیجا:’’میں تمھارے ساتھ ہوں، تم اہل ایمان کے قدم جماؤ، میں کافروں کے دل میں رعب ڈال دوں گا، سنو! تم گردنوں پر مارو (قتل) اور ان کی پور پور پر مارو۔‘‘ (سورۂ انفال آیت 12)۔
ایک آیت میں اللہ فرماتا ہے کہ :
’’میں ایک ہزار فرشتوں سے تمھاری مدد کروں گا جو آگے پیچھے آئیں گے۔‘‘
سورۂ انفال آیت9