You are currently viewing “اسلام، پردہ، اور عورت: عزت، وقار، اور خود مختاری کی علامت”

“اسلام، پردہ، اور عورت: عزت، وقار، اور خود مختاری کی علامت”

حِجاب سے مُراد ہر وہ شے ہے جو آپ سے آپ کا مقصود چھپا دے یعنی آپ ایک شے کو دیکھنا چاہیں مگر وہ شے کسی آڑ یا پردےکے پیچھے چھپی ہوئی تو وہ آڑ یا پردہ حجاب کہلاتا ہے۔

حجاب کا یہ مفہوم قرآنِ کریم میں کئی مقامات پر مذکور ہے، جیسا کہ پارہ 23 سورہ ص کی آیت نمبر 32 میں ارشادہوتا ہے

یہاں تک کہ نگاہ سے پردے میں چُھپ گئے۔

عورتوں کے حجاب سے کے متعلق حضرت سیدنا امام ابن حَجَر عَسْقَلانی فرماتے ہیں عورتوں کے حجاب سے مراد یہ ہے (کہ وہ اس طرح پردہ کریں)کہ مَرد انہیں کسی طرح دیکھ نہ سکیں۔ عورتوں کے حجاب کی فرضیت کے حکم سے متعلق ٢مختلف روایات بیان کی جاتی ہیں ایک روایت کے مطابق پردے کا حکم ٤ ہجری ذو القعدۃ الحرام کے مہینےمیں اُمُّ المومنین حضرت زینب بنت جحش کی رخصتی کے دن مسلمان عورتوں کے لیے پردہ کا حکم نازل ہوا۔

تاہم دوسری روایت اور بعض علماکرام کے مطابق  یہ حکم ٢ ہجری کو نازِل ہوا، مگر پہلا قول ہی زیادہ قوی مانا جاتا ہے پردہ و حجاب کو اِسلامی شعار کی حیثیت حاصل ہے،کیونکہ اسلام سے قبل دور جاہلیت میں عورت بے پردہ تھی اور اِسلام نے اسے پردہ و حجاب کے زیور سے آراستہ کر کے اسے باوقار اور باعزت اور عظمت کا نشان بنایا 

سورہ احزاب آیت ٣٣ میں  ارشاد ربّانی ہے اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے اگلی جاہِلیَّت کی بے پردگی۔

علامہ نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں فرماتے ہیں:اگلی جاہِلیَّت سے مُراد قبلِ اسلام کا زمانہ ہے، اُس زمانہ میں عورتیں اِتراتی نکلتی تھیں، اپنی زینت ومَحَاسِن (یعنی بناؤ سنگھار اور جسم کی خوبیاں مَثَلا ًسینے کے اُبھار وغیرہ) کا اظہار کرتی تھیں کہ غیر مرد دیکھیں۔لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اعضا اچھّی طرح نہ ڈھکیں۔(خزائن العرفان، پ۲۲، الاحزاب،:۳۳، ص ۷۸۰) افسوس! موجودہ دور میں بھی زمانۂ جاہِلیَّت والی بے پردگی پائی جارہی ہے۔ یقیناً جیسے اُس زمانہ میں پردہ ضَروری تھا ویسا ہی اب بھی ہے۔

 ایک بار ام المؤمنین حضرت  سَودہ سے عرض کی گئی: آپ کو کیا ہو گیا ہے کہ آپ  باقی ازواج کی طرح  حج کرتی ہیں نہ عمرہ؟تو آپ نے فرمایا:میں نے حج و عمرہ  کر لیا ہے،چونکہ میرے ربّ نے مجھے گھر میں رہنے کا حکم فرمایا ہے۔ لہٰذا خدا کی قسم! اب میں موت آنے تک گھر سے باہر نہ نکلوں گی۔ راوی فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! آپ گھر کے دروازے سے باہر نہ نکلیں یہاں تک کہ آپ کا جنازہ ہی گھر سے نکالا اسی طرح حضرت  فاطمہ زہرا نے موت کے وقت یہ وصیت فرمائی کہ بعدِ انتقال مجھے رات کے وقت دفن کرنا تاکہ میرے جنازے پر کسی غیر کی نظر نہ پڑے۔( مدارج النبوت، الجزء الثانی، ص۴۶۱   المومنین حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ جب قرآنِ مجید کی یہ آیتِ مبارکہ نازِل ہوئی  :اے نبی اپنی بیبیوں اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادروں کا ایک حصّہ اپنے منہ پر ڈالے رہیں۔تو انصار کی خواتین  سیاہ چادر اوڑھ کر گھروں سے نکلتیں ، ان کو  دور سے دیکھ کر یوں لگتا  کہ ان کے سروں پر کوّے بیٹھے ہیں۔ بحوالہ ابو داود، ص٦٤٥، حدیث : ٤١٠١،  

ابو داؤد کی ایک روایت پردے کے حوالے سے حضرت ام خلاد کی ہے کی ہے انکا بیٹا جنگ میں شہید ہوگیا ۔ آپ  ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے نقاب ڈالے بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہو ئیں تو  اس پر کسی نے حیرت سے کہا: اِس وقت بھی باپردہ ہیں تو وہ کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضرور کھویا ہے، حَیا نہیں کھوئی

حضرت عطا بن ابو رَباح سے مروی ہے کہ حضرت ابنِ عباس نے مجھ سے فرمایا: میں تمہیں جنَّتی عورت  نہ دِکھاؤں؟ میں نے عرض کی:کیوں نہیں۔ فرمایا: یہ حبشی عورت(جنتی ہے)۔ اس نے نبی پاک  کی بارگاہ میں آ کر عرض کی:یارسول اللہ ! مرگی کے مرض کی وجہ سے میرا سِتْر (پردہ )کھل جاتا ہے آپ میرے لیے دُعا فرمائیے۔تو آپ  نے ارشاد فرمایا: چاہو تو صبر کرو تمہارے لیے جنّت ہے اور اگر چاہو تو  میں اللہ پاک سے تمہارے لیے دُعا کروں کہ وہ تجھے عافیت عطافرما ئے۔ اس نے عرض کی: میں صبر کروں گی۔ پھر عرض کی: دُعا کیجئے بوقت مِرگی میرا پردہ  نہ کُھلا کرے۔چنانچہ آپ  نے اس کے لیے دعا فرمادی۔

غرض اسلامی معاشرے کو تباہی اور بی حیائی سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ اور اُسکے رسول کے بتاے ہوئے احکامات پر عمل کیا جائے اور سرکشی سے بچا جائے ورنا ہمارا حال بھی گزشتہ اقوام کا سا ہوگا  اللہ تعالی ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے اور ہمیں شریعت محمدی پر ثابت قدمی سے اور پوری جذبے کسی ساتھ چلنے کی توفیق عطا فرمائے

Leave a Reply