You are currently viewing حضرت طفیل بن عمرو الدَوسی کا تعارف

حضرت طفیل بن عمرو الدَوسی کا تعارف

جزیرۃ العرب میں ’’تہامہ‘‘نامی ایک مشہورعلاقہ تھا  جس کاکچھ حصہ  آجکل حجاز(سعودی عرب) میں  جبکہ دیگرکچھ حصہ ملکِ یمن میں ہے وہاں ’’دَوس‘‘نامی ایک قبیلہ  آباد تھا، جس کی طاقت اورشان وشوکت کے بڑے چرچے تھے،طفیل بن عمرونامی شخص اس طاقتور ترین قبیلے کاسردارتھا،نیزیہ کہ زمانۂ جاہلیت میں عرب معاشرے میں جوبڑے بڑے نامی گرامی ’’شرفاء‘‘تھے   جن کی سخاوت وفیاضی   مہمان نوازی   اورشجاعت وبہادری کے بڑے چرچے تھے   اوراسی بناء پرانہیں انتہائی عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھاجاتھاتھا   انہی میں طفیل کاشمارہوتاتھا۔ طفیل کی سخاوت وفیاضی اورمہمان نوازی کایہ عالم تھاکہ اس کے گھرمیں چولہاکبھی نہیں بجھتا تھا،دروازہ کبھی بند نہیں کیاجاتاتھا،رات ہویادن ہرایک کیلئے ہروقت اس کے گھرکا دروازہ کھلارہتا اوردسترخوان سجارہتاتھا۔ مزیدیہ کہ وہ بہت ہی فصیح وبلیغ قسم کاادیب   خوش بیان شاعر   شعلہ انگیز خطیب  نیزبہت ہی باذوق   سمجھدار  اور دانشور قسم کاسلجھا ہوا انسان تھا۔ایک بار طفیل بیت اللہ کی زیارت کی غرض سے اپنے علاقے ’’تہامہ‘‘سے مکہ کی جانب روانہ ہوا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مکہ میں رسول اللہ ﷺ اورمشرکین کے مابین کشمکش خوب عروج پرتھی،  آپؐ شب وروزاورصبح وشام بستی بستی  نگری نگری  گھوم پھرکراللہ کے دین کی طرف دعوت دینے میں مشغول ومنہمک تھے،اوراس مبارک فریضے کی انجام دہی میں  آپؐ کا ہتھیار تھا’’اللہ پرتوکل وایمان‘‘ جبکہ مشرکینِ مکہ اپنی تمام تر قوت وتوانائی کے ساتھ  آپؐ کاراستہ روکنے پرتُلے ہوئے تھے،اوراس مذموم وناپاک مقصدکی خاطران کاہتھیار تھا ’’طاقت وقوت   زور اور زبردستی   دھونس اوردھمکی  ‘‘۔

ایسی صورتِ حال میں جب سردارانِ قریش کوطاقتورقبیلے ’’دَوس‘‘کے سردارکی تہامہ سے مکہ  آمدکی اطلاع ملی توانہوں نے اس کادل جیتنے نیزاسے رسول اللہ ﷺ سے دوررکھنے کی خاطر نہایت گرمجوشی کے ساتھ اورخوب پُرتپاک طریقے سے اس کااستقبال کیا،خوب مہمان نوازی اور آؤبھگت کی ،اورپھررفتہ رفتہ اس کے سامنے رسول اللہ ﷺ کی برائیاں شروع کیں ،اوراسے  آپؐ سے متنفرکرنے کی کوششوں میں لگ گئے۔ طفیل کورسول اللہ ﷺ سے متنفرکرتے ہوئے ان مشرکینِ مکہ نے یہ بات بھی کہی کہ (نعوذباللہ)یہ شخص بہت بڑا پہنچا ہوا جادوگر ہے اس کے پاس ایساعجیب وغریب کلام ہے کہ اگرکوئی ایک بارسُن لے پھروہ کسی کام کاج کے قابل نہیں رہتا بس اسی کادیوانہ ہوکررہ جاتاہے اس نے اپنے اسی جادوکے ذریعے ہمارے معاشرے میں پھوٹ ڈال دی ہے،ہمیں تقسیم کرکے رکھ دیاہے ، جس کی وجہ سے اب ہماری سرداری اور تمام شان وشوکت بھی بڑے خطرے سے دوچارہوچکی ہے لہٰذاایسانہ ہوکہ ہماری طرح تمہاری قوم بھی ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہوجائے اورتمہاری سرداری اورشان وشوکت بھی جاتی رہے اس تمام صورتِ حال کی وجہ سے یہ سردار’’طفیل‘‘پریشان ہوگیا،کیونکہ یہ سب کچھ اس کیلئے بالکل اچانک اورغیرمتوقع تھا،نیزیہ کہ وہ اس کشکمکش میں فریق نہیں بنناچاہتاتھا جبکہ مشرکینِ مکہ اسے مسلسل خوفزدہ کرتے ہی رہے آخرطفیل نے یہ فیصلہ کرلیاکہ وہ کسی صورت اس شخص(یعنی رسول اللہ ﷺ )سے ملاقات نہیں کرے گا،نہ ان کی کوئی گفتگو سنے گا،نہ ہی ان سے کوئی بات چیت کرے گا،ہرقیمت پر اور بہرصورت ان سے دورہی رہے گا۔ اسی سلسلے میں سردارانِ قریش کی طرف سے طفیل کورسول اللہ ﷺ سے خوفزدہ کرنے کی غرض سے خبردارکیاگیاتھاکہ  آپؐ اکثر و بیشتر بیت اللہ کے قریب ہی نظر آیا کرتے ہیں  لہٰذا وہاں خاص احتیاط برتنا ضروری ہے۔ چنانچہ طفیل جب بیت اللہ کی زیارت کیلئے روانہ ہونے لگا تواحتیاطی تدبیرکے طورپراپنے کانوں میں روئی ٹھونس لی،تاکہ وہاں محمد ( ﷺ )اگر موجود ہوئے توان کی  آواز یاان کی کوئی بات اس کی سماعت سے نہ ٹکرانے پائے ،اوراس طرح یہ اُس ’’جادو‘‘سے محفوظ رہ سکے جس سے اسے خوب خوفزدہ کیاگیاتھا بیت اللہ کے قریب پہنچنے کے بعدجو صورتِ حال پیش  آئی وہ خودطفیل نے بعدمیں اپنی زبانی یوں بیان کی ہے:’’میں نے بیت اللہ کے قریب ایک شخص کوکھڑے دیکھاجوکہ ہماری عبادت سے مختلف کسی اورہی طریقے سے عبادت(نماز)میں مشغول تھا،میں سمجھ گیاکہ یہی محمد( ﷺ )ہیں ، مجھے ان کایہ انداز  اورعبادت کایہ طریقہ اچھالگا،اورمیں بے اختیاران کے قریب ہوتاگیا، ان کی شخصیت میں اورسراپا میں مجھے عجیب سی کشش محسوس ہورہی تھی،لہٰذامیں مزیدقریب ہوگیا،حتیٰ کہ میرے کانوں میں ان کی تلاوتِ قر آن کی  آواز آنے لگی،تب اس موقع پر پہلے تومجھے رؤسائے قریش کی باتیں اوران کی نصیحتیں یاد آنے لگیں ،لہٰذامیں نے وہ روئی اپنے کانوں میں مزیداچھی طرح مضبوطی کے ساتھ ٹھونس لی،لیکن پھرجلدہی ان کاوہ شیریں کلام دوبارہ سننے کیلئے میرادل بیتاب ہونے لگا،کچھ دیریہی کشمکش جاری رہی  آخرمیرے دل سے  آواز آئی ’’اے طفیل!تم کوئی معمولی انسان نہیں ہو،تم اپنی قوم کے رہنماہو،اتنے بڑے طاقتورقبیلے کے سردارہو،اورپھریہ کہ تم اس قدرپہنچے ہوئے ادیب   فصیح وبلیغ خطیب   اور نامی گرامی شاعربھی ہو،تمہیں اچھے اوربرے کلام کی خوب پہچان ہے توپھر یہ عجیب حرکت کیوں کررہے ہو کہ اپنے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے؟ تمیں کس بات کاڈرہے؟ تمہیں یہ کلام سن لیناچاہئے  اگریہ کلام اچھاہوا تواپنا لینا،برا ہوا تو چھوڑ دینا ‘‘

arbi-man-chlao-masjid-com-2

دل کی یہ  آواز اورضمیرکی یہ پکارسننے کے بعدطفیل نے اپنے کانوں سے وہ روئی نکال پھینکی، اور تب خوب جی بھرکررسول اللہ ﷺ کی زبانی اللہ عزوجل کامبارک ومقدس کلام سنا،دل کی دنیابدلنے لگی،کفروشرک اورمعصیت وضلالت کی تاریکیاں چھٹنے لگیں  اورتب دل میں فوری اورپختہ عزم کرلیاکہ ضرور بضروررسول اللہ ﷺ سے ملاقات کرنی ہے لیکن اُس وقت سردارانِ قریش کی موجودگی میں یہ مناسب نہیں سمجھا،البتہ بعدمیں بہت جلدہی رسول اللہ ﷺ کے گھرمیں حاضر ہوکر وہاں شرفِ ملاقات حاصل کیا، آمدکامقصدبیان کیا،تمام ماجراکہہ سنایا تب رسول اللہ ﷺ نے بھی انہیں کچھ سنایا ایسا کلام سنایا جس کی تأثیر اورجس کی حلاوت طفیل کے دل میں بہت دورگہرائیوں میں پیوست ہوتی چلی گئی اوروہ کلام تھا : قُل ھُوَاللّہُ أحَد ، اللّہُ الصَّمَد ، لَم یَلِد وَلَم یُولَد ، وَلَم یَکُن لَہ  کُفُواً أحَد ۔ یعنی’’کہہ دوکہ اللہ ایک ہے،اللہ بے نیازہے،نہ اس کی کوئی اولادہے   نہ وہ خودکسی کی اولادہے،اورنہ ہی کوئی اس کا ہمسرہے‘‘۔رسول اللہ ﷺ کی زبانِ مبارک سے یہ کلامِ الٰہی سننے کے بعدطفیل زاروقطاررونے لگے، اورپھرکلمۂ حق’’أشہدأن لاالٰہ الااللہ،وأشہدأن محمداًرسول اللہ‘‘پڑھتے ہوئے دینِ برحق قبول کیا،نیزنبیٔ برحق( ﷺ )کے دستِ مبارک پربیعت کی  اوریوں ’’تہامہ‘‘ میں  آباد مشہورومعروف اورطاقتورترین قبیلے ’’دَوس‘‘کایہ سردار’’طفیل‘‘اب رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدرصحابی ’’حضرت طفیل بن عمروالدَوسی رضی اللہ عنہ‘‘بن گئے۔

Leave a Reply