غزوۂ اُحد کے موقع پرجب مسلمان اپنی ہی ایک غلطی کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ ہار گئے تھے،اور ہر طرف افراتفری پھیل گئی تھی،مسلمانوں کو بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا تھا،اور وہ سب شدیدصدمے کی کیفیت سے دوچار تھے
دوران جنگ
ایسے میں جنگ کے خاتمے کے فوری بعد مسلمانوں کویہ تشویش لاحق ہوئی کہ ہماری اس کیفیت اورشکست و ریخت کو محسوس کرتے ہوئے ایسا نہ ہو کہ مشرکینِ مکہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی خاطر دوبارہ ہم پر حملہ آور ہوجائیں لہٰذا اس چیز کے سدِباب کی غرض سے رسول اللہ نے اپنے اصحاب سے مشاورت اور کےغوروفکر کے بعد یہ فیصلہ فرمایا کہ مسلمانوں کا ایک دستہ مشرکینِ مکہ کے تعاقب میں روانہ کردیا جائے تاکہ ان پر خوف طاری ہو جائےظاہر ہے کہ اس وقت مسلمان جس جسمانی ونفسیاتی کیفیت سے دوچار تھے ،اور جس طرح انہیں شکست وریخت کا سامنا تھا وہ سبھی زخموں سے چور تھے ایسے میں اب دوبارہ اسی دشمن کے تعاقب میں نکل کھڑے ہونا یہ بہت دل گردے کا اور انتہائی جان جوکھوں کا کام تھا لیکن بہرحال جب رسول اللہ نے اس چیزکافیصلہ فرما ہی لیا تو اب ستر مسلمانوں کا ایک دستہ فوری طور پر تیار کیا گیا اور اس کی قیادت کیلئے آپ نے حضرت زبیر بن العوام کو منتخب فرمایا،چنانچہ یہ دستہ اُحد کے میدان سے ہی فوری طور پر مشرکینِ مکہ کے تعاقب میں روانہ ہوگیامکہ کی طرف پلٹتے ہوئے مشرکین نے جب مسلمانوں کے اس دستے کو اپنے تعاقب میں آتا دیکھا تو وہ مسلمانوں کی ہمت و شجاعت بلند حوصلہ اور عزیمت واستقامت دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے ان میں سے کچھ لوگ یوں کہنے لگے کہ اتنی بڑی شکست کے بعد مسلمان کبھی ہمارے تعاقب کی جرأت نہیں کرسکتے،لہٰذا ضرور انہیں کہیں سے کوئی بڑی بھرپور مدد ملی ہے ،لہٰذا یہ کوئی تازہ دم دستہ ہمارے تعاقب میں چلے آرہا ہے اور عین ممکن ہے کہ اس کے پیچھے مزید دستے بھی چلے آرہے ہوں الغرض مسلمانوں کے اس بروقت اقدام کی وجہ سے مشرکینِ مکہ پرمسلمانوں کی طرف سے خوف اور رعب طاری ہوگیا،جس کی وجہ سے انہوں نے یہ طے کیا کہ ہمیں راستے میں کہیں رکے بغیر جلدازجلد واپس مکہ پہنچنا چاہئے چنانچہ اب انہوں نے اپنی واپسی کی رفتار مزید تیز کردی اورسیدھے مکہ پہنچ کر ہی دم لیا اور یوں مسلمان ان کے دوبارہ حملہ آور ہوجانے کے اندیشے سے محفوظ ومطمئن ہوگئے۔غزوۂ احزاب کے موقع پرجب مشرکینِ مکہ نیز دیگر بہت سے عرب قبائل مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کی غرض سے بہت بڑی تعداد میں مدینہ آپہنچے تھے،کیفیت یہ تھی کہ جدھر نگاہ اٹھتی تھی بس چہار سو دشمن کی فوج ہی نظر آتی تھی اس بیرونی دشمن کی طرف سے لاحق خطرے کے علاوہ مزید یہ کہ اندرونی خفیہ دشمنوں بالخصوص یہودِمدینہ کے طاقتور قبیلے بنوقُریظہ کی طرف سے مسلمانوں کو بہت زیادہ تشویش لاحق تھی،ایسی اطلاعات بھی مل رہی تھیں کہ اس قبیلے نے مشرکینِ مکہ کے ساتھ خفیہ معاہدہ کر رکھاہے، اور یہ منصوبہ تیار کیا گیا ہے کہ جب مشرکینِ مکہ کی طرف سے مسلمانوں پر بھرپور حملہ کیاجائے گا، اور ہر طرف خوب افراتفری ہوگی تب موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مدینہ شہر کے اندر یہ یہودی فتنہ برپا کریں گے،مسلمانوں کے گھروں پر حملے کریں گے ،ان کی املاک کولوٹیں گے ، نیز ان کی عورتوں اور بچوں کو قتل کرڈالیں گے
ہجرت کے بعد قیا م مدینہ
یہودِمدینہ کے ان ناپاک عزائم سے رسول اللہ و دیگر تمام مسلمان بخوبی آگاہ ہوچکے تھے، لہٰذا اب یہ بہت نازک صورتِ حال تھی،ایک طرف خندق کے اُس پار صف آرا بیرونی دشمن کی طرف سے کسی بھی وقت بڑا حملہ متوقع تھا،دوسری طرف خود مدینہ شہر کے اندر اِن خفیہ دشمنوں کی طرف سے اچانک بڑی جارحیت کا اندیشہ تھا ایسے میں مسلمانوں کو اپنے بیوی بچوں کے بارے میں بڑی تشویش لاحق تھی اسی صورتِ حال کے درمیان ایک رات رسول اللہ نے اپنے ساتھیوں کومخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا ہے کوئی جو مجھے بنوقریظہ کے بارے میں خبر لا کردے؟ اس پر حضرت زبیر نے عرض کیا اے اللہ کے رسول!میں حاضر ہوں چونکہ یہ کام بہت زیادہ خطرناک تھا، تنہا خفیہ طور پر بنوقریظہ کے محلے میں جانا، وہاں صورتِ حال کا جائزہ لینا،کسی بھی طرح ان کے عزائم اور خفیہ منصوبوں کا کھوج لگانا،اور پھر اسی طرح چھپتے چھپاتے وہاں سے واپس آنا مزید اتفاق یہ کہ وہ رات بھی انتہائی بھیانک تھی، اندھیرا بہت زیادہ تھا، ہرطرف تیز طوفانی ہواؤں کے جھکڑ چل رہے تھے، سردی انتہائی عروج پر تھی یہی وجہ تھی کہ ایسے میں یہ کام انجام دینا بہت جان جوکھوں کا کام تھا لہٰذارسول اللہ کے استفسار پر جب حضرت زبیر نے آمادگی ظاہر کرتے ہوئے خود کو اس کام کیلئے پیش کیا، تواس کے باوجود آپ نے اپنا یہی سوال دہرایا دوسری بار بھی وہاں موجود تمام افراد میں سے حضرت زبیر نے ہی جواب دیا کہ میں حاضر ہوں ۔اور پھر آپ نے تیسری بار یہی سوال دہرایا ،تب تیسری بار بھی حضرت زبیر نے ہی جواب دیا کہ میں حاضر ہوں تب رسول اللہ نے حضرت زبیر بن العوام کوضروری ہدایات دے کر بنوقریظہ کی جانب روانہ فرمایا، اور اس موقع پر آپ نے یہ یادگار ترین الفاظ ارشاد فرمائے: ہرنبی کاایک حواری ہوا کرتا ہے، اور میرے حواری زبیر ہیں وقت کا یہ سفر جاری رہا حضرت زبیر بن العوام کی طرف سے رسول اللہ کی خدمت میں حاضری کسبِ فیض استفادہ نیز آپ کی خدمت و پاسبانی کا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا آپ کی طرف سے بھی زبیر کیلئے محبتوں اور شفقتوں کے مبارک سلسلے مسلسل جاری رہے حتیٰ کہ اسی کیفیت میں آپ کا مبارک دور گذر گیا آپ تادمِ آخر ان سے انتہائی خوش اور مسرور و مطمئن رہے۔