You are currently viewing حضرت موسی اور قارون

حضرت موسی اور قارون

حضرت موسیٰ نے ہارون کی زبانی تمام باتیں سنیں تو قوم سے کہا کہ اس رب کا حکم مانو جس نے ساری کائنات کو پیدا کیا، اللہ نے مجھ پر کتاب توریت نازل کی ہے، یہی شریعت ہے اس پر عمل کرو، پھر آپ نے سامری کے بنائے ہوئے بچھڑے کو توڑ ڈالا اور کہا کہ یہ بت پرستی ہے، بتوں کی پوجا نہ کرو، نیک عمل کرو، برائی سے بچوار قوم نے حضرت موسیٰ کی باتوں کو نہیں مانا تو اللہ نے ان لوگوں پر عجیب و غریب عذاب نازل کیا وہ عذاب کس طرح تھا جیسے کہ ان کے سروں پر پہاڑ لٹک رہا ہو اور ابھی گرنے ہی والا ہو۔ لوگ سروں پر لٹکتے ہوئے پہاڑ کو دیکھ کر خوف زدہ ہوئے اور سجد سے میں گر پڑے تو ان پر سے عذاب ٹل گیا

ایک مرتبہ اللہ نے موسیٰ سے وعدہ کیا تھا کہ میں ملک شام کی سرزمین کا وارث بناؤں گا۔ جہاں تم سب اطمینان سے زندگی بسر کر سکو گے لیکن شرط یہ ہے کہ اس سرزمین کو حاصل کرنے کے لئے جہاد کرنا پڑے گا حضرت موسیٰ نے یہ خوش خبری اپنی قوم کو سنائی اس سے خوش آئند بات کیا ہو سکتی ہے۔ اسرائیلی اس بات سے خوش تو تھے وہ چاہتے تھے کہ ہمیں یہ سرزمین آسانی سے مل جائے ، جہاد کرنا نہ پڑے جہاد کرنے کے لئے دل سے تیار نہ تھے۔ موسیٰ کے سمجھانے پر بعد میں آمادہ ہو گئے۔ حضرت موسیٰ پہلے تو اپنی قوم کو لے کر کنعان پہنچے وہاں جا کر کچھ اطمینان کا سانس لیا وہاں جہاد کے لئے اپنی قوم کو تربیت دینے لگے نظم و ضبط پیدا کرنے کے لئے کچھ طریقے وضع کئے بنی اسرائیل بارہ قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے، ہر قبیلے کے لئے ایک سردار مقرر کر دیا تا کہ ہر قبیلہ اپنے اپنے سردار کے ماتحت رہے اور سردار کے حکم پر چلے، ان تمام انتظامی امور کی تکمیل کے بعد جہاد میں جانے کی تیاری شروع کی، اور شام کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔ اب جہاد میں جانے کے لئے آمادہ نہ ہوئے لڑنے کے نام سے خوف زدہ تھے اور کہا کہ شام کے باشندے طاقتور ہیں اور جسمانی لحاظ سے بھی وہ ہم سے موٹے تازے ہیں۔ ان زور آوروں سے ہم نہیں لڑ سکتے۔

ہمارے اندر کوئی حوصلہ نہیں ہے، حضرت موسیٰ نے فرمایا، ان کے ڈیل ڈول سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے اللہ تعالیٰ ہمیں فتح نصیب کرے گا حضرت موسیٰ کے سمجھانے پر بھی ان کی سمجھ میں نہ آیا وہ اپنی ضد پر اڑے رہے اور کہا کہ اے موسیٰ تم لڑو اور تمہارا رب بڑے ہم نہیں لڑیں گے ۔ موسیٰ اپنی قوم کے اس بزدلانہ رویہ سے بالکل مایوس ہو گئے پھر آپ نے مایوسی کے عالم میں دعا کی اے اللہ مجھے اور میرے بھائی ہارون کو ان سے علیحدہ کر دے۔“ اللہ نے موسیٰ کی دعا سن لی اور فرمایا کہ یہ لوگ چالیس برس تک اسی بیاباں میں بھٹکتے ہی رہیں گے انہیں یہاں سے نکلنے کا راستہ نہیں ملے گا چنانچہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون اپنی قوم سے ملیحدہ ہو کر شام کی طرف روانہ ہو گئے ۔

حضرت موسیٰ اور ہارون کے چلے جانے کے بعد ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں تھا ہر طرح کی مصیبت نے انہیں گھیر رکھا تھا۔ مصائب سے وہ بالکل گھبرا گئے اب ان کے سامنے ایک ہی راستہ رہ گیا تھا کہ مصر واپس چلے جائیں لیکن راستہ ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا ، وہ مصر جانے کے لئے کچھ فاصلہ طے کرتے دوران سفر اسی جگہ گھوم کر چلے آتے جہاں سے سفر شروع کرتے ان کے سامنے یہ عجیب و غریب معاملہ تھا، بھوک و پیاس نے اور بھی نڈھال کر دیا تھا نہ کھانا تھا نہ پانی جب موسیٰ اور ہارون علیہم السلام ملک شام سے لوٹے تو ان کو تباہ حال پایا قوم نے ان سے فریاد کی کہ یہ کیسی مصیبت ہے کہ ہمیں گھیر کر رکھا ہے۔ حضرت موسیٰ بولے یہ تو تمہارے ہی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے تم بزدل ہو چکے ہو، تم نے جہاد میں جانے سے انکار کر دیا تھا یہی وجہ ہے کہ تم سب اللہ کے غضب میں آگئے ۔ تم یہاں چالیس سال سے بھٹک رہے ہو، موسیٰ نے اللہ سے فریاد کی تو ان کی مصیبت ٹل گئی انہیں راستہ ملا پھر مختلف قبیلے مختلف مقامات کی طرف چل پڑے۔ کچھ کچھ قبیلے بیت المقدس میں آباد ہو گئے

مصر میں ایک شخص تھا، نام قارون تھا۔ لیکن تھا بہت بخیل اور کنجوس ، اس کے پاس دولت کی کوئی کمی نہیں تھی۔ روایت ہے کہ اس کے خزانے کی کنجیاں اتنی تھیں کہ اگر ان کنجیوں کو کہیں لے جایا جائے تو اونٹوں کے ایک قافلے کی ضرورت تھی چابیاں بھی اتنی تھیں کہ ان کے بوجھ سے اونٹ بیٹھ جاتے تھے، لیکن وہ اپنا خزانہ غریبوں اور محتاجوں پر خرچ نہیں کرتا تھا نہ بھوکوں کو کھانا کھلاتا نہ کسی کو تن ڈھانکنے کے لئے کپڑے پہناتا ۔ حضرت موسیٰ قارون کو ہدایت کرتے کہ اللہ نے تمہیں بہت دولت دی ہے آخر یہ دولت کس کام کی یہ دولت تو دنیا میں رہ جانے والی ہے اللہ کے نام پر غریبوں اور محتاجوں کو دو۔ قارون جواب دیتا کہ یہ دولت تو میں نے اپنی عقل سے پیدا کی ہے یہ میری مرضی ہے کہ میں کسی کو نہ دوں۔ حضرت موسیٰ کہتے کہ اپنے مال میں سے زکوۃ ہی نکال اس میں غریبوں کا بھلا ہوگا تمہیں دعائیں دیں گے۔ خدا تم سے راضی ہوگا، قارون کہتا کہ اگر میں اپنے مال میں سے زکوٰۃ نکالوں تو خدا مجھے اس کے بدلے میں کیا دے گا۔ موسیٰ نے فرمایا کہ تیری آخرت سنور جائے گی وہ موسیٰ پر الزام لگایا کرتا تھا کہ موسیٰ میری دولت چھینا چاہتا ہے، صرف یہی نہیں بلکہ حضرت موسیٰ کی پاکبازی پر بھی دھبہ لگاتا اور بہتان باندھتا تھا ۔

karon-treasure-chalo-masjid-com

حضرت موسیٰ قارون کے رویہ اور ضد سے بہت پریشان تھے انہیں یقین ہو چکا تھا کہ قارون کبھی بھی راہ راست پر نہیں آئے گا بلکہ الٹا حضرت موسیٰ کو بدنام کرنا شروع کیا اور تکلیفیں پہنچایا کرتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: اے ایمان والو ان لوگوں کے مانند نہ ہو جانا جن لوگوں نے موسی کو تکلیفیں دیں اللہ کے نزدیک موسیٰ نہایت نیک اور پاکباز ہیں ۔ حضرت موسیٰ بالکل مایوس ہو چکے تھے ، انہوں نے اللہ سے فریاد کی تو اللہ نے موسیٰ سے فرمایا کہ اپنا عصا زمین پر مارو۔ حضرت موسیٰ نے زمین پر عصا مارا تو زمین پھٹ گئی حضرت موسیٰ نے زمین سے کہا اے زمین تو قارون کو اپنے اندر سمولے اللہ نے موسیٰ کی دعا سن لی زمین نے اپنا سینہ کھول دیاز مین آہستہ آہستہ پھٹنے لگی قارون ایک ہی بات دہراتا رہا کہ موسیٰ میری دولت پر قبضہ جمانا چاہتا ہے پھر موسی نے فرمایا ” اے زمین اس کی دولت کو بھی اپنے اندر سمولے۔ قارون اپنی دولت سمیت ڈھیروں مٹی تلے چلا گیا نہ وہ رہا نہ اس کی دولت اس کے شاندار محل کے آثار بھی مٹ گئے۔