You are currently viewing “حضرت حمزہ: اسلام کی بہادری کا علمبردار”

“حضرت حمزہ: اسلام کی بہادری کا علمبردار”

حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کی زندگی اور ان کی عظیم قربانیوں کا تذکرہ اسلامی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا گیا ہے۔ آپ کا تعلق مکہ مکرمہ میں قریش کے معزز خاندان بنو ہاشم سے تھا، جو کہ پیغمبر محمد کے خاندان کا حصہ تھا۔ آپ کی ولادت رسول اللہ سے دو سال قبل ہوئی۔ حضرت حمزہ نہ صرف آپ کے چچا تھے بلکہ آپ کے رضاعی بھائی بھی تھے، کیونکہ آپ دونوں کو ایک ہی دودھ پلانے والی عورت، ثویبہ نے دودھ پلایا تھا۔

حضرت حمزہ کی شخصیت میں شجاعت، بہادری، اور وقار کی صفات موجود تھیں۔ ان کی شہرت مکہ میں ہی قائم تھی اور آپ کو اپنے خاندان میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ آپ کا کردار اور آپ کی بہادری اسلامی تاریخ میں مثال کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔

اسلام کے ابتدائی دور میں، جب مسلمان شدید مشکلات کا سامنا کر رہے تھے، حضرت حمزہ نے ایک اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ اس دور میں، رسول اللہ اور مسلمانوں کو قریش کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا تھا۔ ایک دن جب پیغمبر صفا کے قریب سے گزر رہے تھے، ابو جہل نے پیغمبر کو برا بھلا کہا اور بے عزتی کی۔ پیغمبر نے اس کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش رہے۔

اس وقت ایک کنیز نے حضرت حمزہ کو بتایا کہ ابو جہل نے پیغمبر کی توہین کی ہے۔ حضرت حمزہ نے فوراً ابو جہل کی طرف روانہ ہو کر اس پر حملہ کر دیا اور اسے زخمی کر دیا۔ اس واقعے کے بعد حضرت حمزہ نے اسلام قبول کر لیا اور پیغمبر کے ہمراہ ہو گئے۔

arabic-man-chalo-masjid-com-5

حضرت حمزہ کے اسلام قبول کرنے کے بعد، مسلمانوں کو ایک بڑی قوت ملی۔ آپ کی شجاعت اور بہادری نے مسلمانوں کے حوصلے بلند کیے اور مشرکین کو شدید صدمہ پہنچا۔ اس دوران، حضرت حمزہ نے جنگِ بدر میں اہم کردار ادا کیا، جہاں انہوں نے بے جگری سے لڑائی کی اور مسلمانوں کو فتح دلائی۔

جنگِ اُحد میں، جب مشرکین نے مسلمانوں سے بدلہ لینے کی کوشش کی، حضرت حمزہ نے پھر سے بہادری کا مظاہرہ کیا۔ اس جنگ کے دوران، آپ نے دشمنوں کا سخت مقابلہ کیا۔ تاہم، جنگ میں مشرکین نے آپ کے پیچھے انتقامی جذبے سے وحشی بن حرب کو روانہ کیا، جس نے حضرت حمزہ کو شہید کر دیا۔

حضرت حمزہ کی شہادت کے بعد مشرکین نے آپ کے جسم کی بے حرمتی کی۔ ہند بنت عتبہ، جو کہ آپ کے قتل کی عینی شاہد تھی، نے حضرت حمزہ کے جسم کو شدید نقصان پہنچایا۔ وہ حضرت حمزہ کے اعضاء کو نوچنے اور ان کے سینے کو چاک کرنے میں ملوث رہی۔ اس کے بعد، رسول اللہ نے حضرت حمزہ کی حالت دیکھ کر شدید غم و افسوس کا اظہار کیا۔ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہے اور آپ نے اس دردناک واقعے پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔

حضرت حمزہ کی شہادت اسلامی تاریخ میں ایک عظیم مثال ہے۔ آپ نے اپنی زندگی میں شجاعت اور بہادری کے جو مظاہرے کیے، وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ آپ کی شہادت کے بعد، مسلمانوں نے اس وقت عہد کیا کہ اگر کبھی انہیں مشرکین کے خلاف فتح نصیب ہوئی، تو وہ ان کا ایسا ہی مثلاً کریں گے۔

اس موقع پر آسمان سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیات نازل کیں، جن میں مسلمانوں کو انتقام کی حدود اور صبر کی اہمیت کی تعلیم دی گئی۔ یہ آیات مسلمانوں کو بتاتی ہیں کہ اگر انتقام لینا ہو تو اسی قدر لینا چاہیے جتنا نقصان پہنچایا گیا ہو، اور صبر کرنا بہتر ہے۔

فتح مکہ کے موقع پر جب مشرکین مکہ کی شکست ہوئی، تو نبی کریم نے انتقام کے بجائے عفو و درگزر کا مظاہرہ کیا۔ یہ اسلامی تاریخ میں ایک عظیم مثال ہے کہ کس طرح پیغمبر اسلام نے اپنی قوم اور دشمنوں کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا۔

حضرت حمزہ کی شہادت کے بعد، آپ کو جنگِ اُحد کے میدان میں دفن کیا گیا، جہاں آپ کو دیگر شہدائے اُحد کے ساتھ دفن کیا گیا۔ آپ کی عمر بوقتِ شہادت 58 برس تھی۔ اللہ تعالیٰ حضرت حمزہ اور دیگر شہدائے اُحد کی روحوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں بھی ان کی عظیم قربانیوں سے سبق سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Leave a Reply