امام حسین کے بڑے صاحبزادے حضرت علی اکبر 10 محرم 61 ہجری کو کربلا کی جنگ میں شہید ہوئے۔ وہ ایک بہادر اور دلیر نوجوان تھے اور انہوں نے یزید کی فوجوں کے خلاف بہادری سے مقابلہ کیا۔
علی اکبر 33 ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام ان کے دادا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر رکھا گیا تھا۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت خوبصورت تھے اور شکل و صورت دونوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھتے تھے۔ وہ ایک عالم بھی تھا، اورانہوں نے قرآن مجید بھی حفظ کر رکھا تھاامام حسین کے بڑے صاحبزادے حضرت علی اکبر 10 محرم 61 ہجری کو کربلا کی جنگ میں شہید ہوئے۔ وہ ایک بہادر اور دلیر نوجوان تھے اور انہوں نے یزید کی فوجوں کے خلاف بہادری سے مقابلہ کیا۔
وہ ایک عالم بھی تھے ، اورانہوں نے قرآن مجید بھی حفظ کر رکھا تھا۔عاشورہ کے دن علی اکبر یزید کی فوجوں سے لڑنے کے لیے نکلے۔ وہ تلوار اور نیزے سے لیس تھے ۔ وہ بہادری سے لڑے ، اور انہوں نے دشمن کے بہت سے سپاہیوں کو مار ڈالاحضرت علی اکبر نے وہ حیدری زور دکھایا کی 200 نا پیکاروں کو جہنم رسید کر کے حضرت امام حسین کے پاس آ ئے اور کہا ا باجان،پیاس کی تقلیف ہے ۔ حضرت اما حسین نے نے ان کو اپنی زبان چسوا ئی ، آ پ پھر میدان میں تشریف لے گے اور مرد مقابل طلب کیا ، کسی کی جرت نہ تھی ،خود لشکر پر گرے بجلی تھی چمک رہی تھی ، جس طرف رُخ کرتے الامان کی صداٰ بلند ہو تی تھی۔، مردوں کے ڈھیر لگ گئے ۔ گھوڑا موڑ کر تشریف لا ئے عرض کیا:اباجان پیا س سے جان جا رہی ہے۔ حضرت امام حسین نے رسول اکرم ﷺکی انگو ٹھی چسوا ئی ،کچھ تسلی ہو ئی ، پھر میدان جنگ میں آ ئے ، طارق بن مثبت کو سپہ سلار نے کہا کہ تجھے ایک شرط پر موصل کی حکومت دلاتا ہوں کہ شاہ زادہ حسین یعنی حضرت علی اکبر کو شہید کر دے، سپہ سالار نے قسمیں کھائی اور اپنی انگو ٹھی طارق کو دی، تب کہیں مو صل کی حکومت کی آرزوہ میں طارق ،حضرت علی اکبر کے مقابل آیا اور حضرت علی اکبر پر نیز چلایا ، آپ اس نیزے کا روک کراس پھرتی سے اپنا نیزہ چلایا جو طارق کے سینے سے پار ہو گیا ، حضرت علی اکبر گھوڑے کو ایڑھ دے کر چلے ،طارق نیزہ کونگا ہوا تھا ،گھوڑے کی اس دوڑ میں چور چور ہو گیا ۔ تاہم، بالآخر وہ مغلوب ہو گے اور ان کے سینے پر پر نیزے کے زور سے مارا گیا۔علی اکبر کی شہادت امام حسین اور ان کے ساتھیوں کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب امام حسین نے اپنے بیٹے کی لاش دیکھی تو پکار اٹھے کہ اے علی اکبر تم میری آنکھوں کی امید اور میرے دل کا نور تھے۔علی اکبر کی شہادت شیعہ اسلام میں ایک اہم واقعہ ہے۔ انہیں ہمت، قربانی اور تقویٰ کی علامت کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی شہادت ان مصائب کی یاد دہانی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان نے یزید کے ہاتھوں سہے تھے۔علی اکبر کی شہادت کی کچھ تفصیلات یہ ہیں:جب وہ شہید ہوئے تو ان کی عمر 27 سال تھی۔ان کے سینے پر نیزے کے زور سے انہیں شہید کیا گیا تھا ۔ان کے جسم کو 33 تیروں سے چھیدا گیا تھا۔وہ یوم عاشورہ کے دن بنو ہاشم کے پہلے شہید تھے۔ان کی قبر کربلا میں ان کے والد کے پاس ہے۔علی اکبر کی شہادت ایک المناک واقعہ ہے، لیکن یہ اس بات کی بھی یاددہانی ہے کہ بڑی مصیبت میں بھی حق کے لیے کھڑے ہونے کی اہمیت ہے۔ علی اکبر کی ہمت اور قربانی دنیا بھر کے لوگوں کو متاثر کرتی رہتی ہے۔حضرت علی اکبر علیہ السلام کا مزار کربلا، عراق میں واقع ہے۔ یہ امام حسین کے بڑے بیٹے علی اکبر کی قبر کی جگہ ہے۔ یہ مزار شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک مقبول زیارت گاہ ہے، جو علی اکبر کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کی شہادت کی یاد منانے کے لیے آتے ہیں۔کربلا میں حضرت علی اکبر کا مزاریہ مزار 10ویں صدی عیسوی میں کربلا کی جنگ کے فوراً بعد تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ ایک سادہ ڈھانچہ ہے، جس میں گنبد والی چھت اور ایک چھوٹا سا صحن ہے۔ مزار کا اندرونی حصہ قرآنی آیات اور مذہب تحریروں سے مزین ہے۔مزار امام حسین کے صحن میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ علی اکبر کی لاش ان کے والد امام حسین کے قدموں تلے دفن تھی۔ یہ مزار محرم کے مہینے میں زائرین کے لیے ایک مقبول مقام ہے، جب شیعہ مسلمان امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی یاد مناتے ہیں۔یہ مزار علی اکبر اور ان کے والد امام حسین کی قربانی کی یاد دہانی ہے۔ یہ ان دو آدمیوں کی ہمت اور تقویٰ کی علامت ہے، جو بڑی مصیبتوں کے باوجود بھی اپنے ایمان کے لیے کھڑے رہے۔