You are currently viewing “حضرت عائشہ: علم و فضیلت کی علامت”

“حضرت عائشہ: علم و فضیلت کی علامت”

آپ کا نام گرامی عائشہ ، لقب صدیقہ کنیت ام عبداللہ اور خطاب ام المومنین ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب والد ماجد سیدنا صدیق اکبر کی جانب سے کچھ اس طرح ہے

عائشہ بنت ابی بکر بن ابی قحافہ بن عثمان بن عامر بن عمر بن کعب بن سعد ابن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فهر بن مالک۔ جبکہ والدہ ماجدہ حضرت ام رومان کےنانا کی طرف سے سلسلہ نسب کچھ یوں ہے: ام رومان بنت عامر بن عویمر بن عبد شمس بن عتاب بن از نیه بن سبیع بن دهمان بن حارث بن ختم بن مالک بن کنانہ ۔ آپ کی رضاعی والدہ وائل کی بیوی تھیں رسول اللہ ﷺ اور حضرت عائشہ  کا سلسلہ نسب ساتویں پشت میں جا کر مل جاتا ہے اور والدہ ماجدہ کی جانب سے گیارھویں، بارہویں پشت پر کنانہ پر جا کر ملتا ہے آپ کے والد گرامی مردوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے ، نبوت ملنے سے پہلے اور بعد کے رسول اقدس ﷺ کے سفر و حضر کے رفیق سیدنا ابو بکر صدیق کی عظمت و شرافت اور بزرگی و اوالعزمی سے کون انکار کر سکتا ہے۔ ؟ ایسے ہی آپ کی والدہ شرافتہ حضرت ام رومان بھی عظیم المرتبت صحابیہ تھیں ۔

حضرت ام رومان   کا پہلا نکاح عبد اللہ سے ہوا عبد اللہ کی وفات کےبعد آپ سیدنا ابو بکر صدیق کے عقد میں آئیں، پھر ان کے بطن سے اللہ تعالی

نےحضرت ابوبکر کو ایک بیٹا عبد الرحمن اور ایک بیٹی عائشہ  عطا فرمائے ۔

جہاں تک حضرت عائشہ   کے سن ولادت کا تعلق ہے تو آپ کے سن ولادت کےبارے میں تاریخ و سیرت کی کتب خاموش ہیں۔

البتہ اتنی بات متفقہ طور پر ثابت ہے کہ ہجرت سے تین سال پہلے آپ ۶ سال کی تھیں۔ ٦سال کی عمر میں ہی نکاح ہوا، شوال١ ھ میں٩سال کی تھیں کہ رخصتی ہوئی

 ۱۸ سال کی عمر میں ربیع الاول ١ ھ میں بیوہ ہوئیں۔ اس طرح ان کی ولادت کی صحیح تاریخ نبوت کے پانچویں سال کا آخری حصہ ہوگا یعنی شوال سن ٩ قبل ہجرت بمطابق جولائی ۲۱۴

 بحوالہ سیرت عائشہ

حرم نبوت ، سیدہ کائنات ام المومنین ، حبیبہ حبیب خدا حضرت عائشہ صدیقہ نے اس گلشن صدیق نےمیں آنکھ کھولی تھی جہاں سب سے پہلے اسلام کی جانفزاں اور دلنواز خوشبو کے جھونکے پہنچے تھے۔ اور جو گلشن شروع ہی سے آفتاب نبوت کی ضیا پاشیوں سے منور رہا تھا ۔ کفر و شرک کی کوئی چنگاری اس دبستان کا رخ کرنے کی جرات نہ کر سکی تھی یہی وجہ ہے کہ حضرت سیدہ عائشہ یا ان کا شمار بھی ان نفوس قدسیہ میں ہوتا ہے جن کا دامن ہمیشہ کفر و شرک اور بدعات وخرفات کی آلودگیوں سے پاک وصاف رہا ہے۔

جب رسول اکرم حضرت صدیق اکبر کے گھر میں بنی ہوئی مسجد میں تشریف لاتے اور نہایت رقت آمیز تلاوت فرماتے تو آپ ان موقعوں سے بھی مستفید ہوتیں اگر چہ زمانہ طفولیت، زمانہ طفولیت ہی ہوتا ہے مگر پروردگار عالم نے جن مقدس ہستیوں کو بلندیوں کو معراج پر پہنچانا ہوتا ہے وہ شروع ہی سے انہیں خدا داد صلاحیتیوں سے نواز دیتا ہے، چنانچہ حضرت عائشہ تھا نے اپنے اس عہد طفولیت کو بھی رائیگاں نہیں جانے دیا بلکہ اپنے فوق الفطرة حافظہ سے کام لیتے ہوئے اسے بھی قیمتی بنایا

فوق الفطرة حافظہ کا کرشمہ

خود فرماتی ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تھی:

بل الساعة موعدهم و الساعة ادهی و امر) (سورة القمر: (۳)

( ترجمہ ) بلکہ قیامت کا روز ان کے وعدہ کا دن ہے، وہ گھڑی نہایت سخت اور نہایت تلخ ہوگی

تو میں کھیل رہی تھی۔ فراد البخاری ۱۲ کتاب التفسير – سورة القمر )

اسی طرح ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عائشہ کا گڑیوں سے کھیل رہی تھیں۔ ان گڑیوں میں ایک گھوڑا بھی تھا، جس کے دائیں بائیں دو پر لگے ہوئے تھے، رسول اکرم ﷺ کا وہاں سے گذر ہوا تو آپ نے گھوڑے کے متعلق دریافت فرمایا تو حضرت عائشہ  نے جواب دیا کہ یہ گھوڑا ہے آپ نے فرمایا کہ گھوڑوں کے پر تو نہیں ہوتے تو حضرت عائشہ   نے برجستہ جواب دیا: کیوں؟ حضرت سلیمان العلم کے گھوڑوں کے پر تو تھے

                 مشكوة عشرة النساء

والد گرامی کی آغوش میں

حضرت ابوبکر اپنی دیگر اولاد کی طرح حضرت عائشہ  کی بھی تربیت فرماتے تھے، اور یہی سلسلہ حضرت عائشہ کی شادی کے بعد بھی جاری رہا اس وجہ سے حضرت عائشہ کسی معمولی لغزش کے سرزد ہونے پر بھی اپنے والد بزرگوار سے بہت سہتی تھیں اور بسا اوقات تو حضرت ابو بکر صدیق حضور ﷺ کےسامنے بیٹی کی سرزنش فرمادیا کرتے تھے۔

اگر چہ حضرت عائشہ کی ابتداء ہی سے اپنے والد ماجد کے آغوش تربیت میں پروان چڑھی تھیں اور تاریخ و ادب کی تعلیم انہی سے حاصل کی تھی تاہم پھر بھی آپ کی تعلیم و تربیت کا اصل اور بنیادی دور رسول اقدس ﷺ کی خدمت عالیہ میں بحیثیت زوجہ محترمہ حاضر ہونے کے بعد ہی شروع ہوا تھا۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ جو کے انسانیت کے معلم اعظم تھے خود آپ کی ایک ایک ادا اورایک ایک حرکت کی نگرانی فرماتے تھے اور جہاں معمولی سی لغزش بھی نظر آتی تو ہدایت و تعلیم سے اسے دور فرما دیتے۔ اس کے علاوہ حضرت عائشہ کی خود بھی عادت مبارکہ یہی تھی کہ جب کبھی کوئی بھی مسئلہ در پیش ہوتا یا کوئی دین کی بات سمجھ میں نہ آتی تو فوراً رسول اقدس سے دریافت فرمالیتیں۔ چنانچہ آپ نے اس زمانے میں پڑھنا لکھنا سیکھا، ناظرہ قرآن حکیم پڑھا، علم انساب سے گہری واقفیت حاصل کی ، وفود عرب سے علم طب سیکھا، اسرار شریعت سے آگاہی ضروریات دین کی معرفت اور تمام علوم قرآنیہ و علوم نبویہ (علی صاحبھا الصلاۃ والتسلیمات) میں مکمل مہارت کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت سے مسائل کے استنباط واستخراج کرنے میں ید طولی بھی حاصل کیا۔ اس طرح یہی بارگاہ نبوت اور انسانیت کے معلم اعظم کی درسگاہ رسالت ہی آپ کے علم وفضل کے کمال کا سب سے بڑا اور بنیادی ذریعہ ثابت ہوئی۔

آپ کی گھریلو زندگی فقر وفاقہ اور نہایت سادگی میں بسر ہوئی تھی جس گھر میں دلہن بن کر آئیں وہ بارگاہ نبوت تھا، جس کی کل کائنات چند اشیاء تھیں، راتوں کو چراغ جلانا بھی گھر والوں کی استطاعت سے باہر تھا ، چالیس چالیس راتیں گذر جاتیں مگر گھر میں چراغ روشن نہ ہوتا، مہینہ مہینہ گھر میں چولہا نہ جلتا، صرف چھوارے کھا کر اور پانی پی کر گزارہ ہوتا تھا۔ اگر کبھی گھر میں کچھ آ بھی جاتا تو وہ بھی فیاضی طبع سے راہ خدا کی نظر ہو جاتا۔ گھر میں کل دو ہی آدمی تھے رسول اللہ ﷺ اور حضرت عائشہ  اور کچھ دنوں بعد باندی حضرت بریرۃ  بھی گھر والوں میں شامل ہو گئیں۔ البتہ ایک گراں قدر دولت اس گھر میں موجود تھی اور وہ تھی اہل خانہ کی باہمی محبت الفت ایہی وجہ تھی کہ حضرت عائشہ کی نو برس کی ازدواجی زندگی میں مصائب و آلام، پریشانیوں اور تنگدستیوں کے باوجود صرف واقعہ ایلاء کے علاوہ کبھی کوئی غیر معمولی باہمی رنجش کا واقعہ پیش نہ آیا، اور گلشن نبوت ( على صاحبها الصلوة والتحيه ) باہمی محبت والفت ، ہمدردی و خیر خواہی اور اتفاق و اعتماد کی خوشبو جانفزاں سے سدا مہکتا رہا۔