You are currently viewing تاریخ اسلام کے شہوار غا ر یا ر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

تاریخ اسلام کے شہوار غا ر یا ر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

تاریخ اسلام کے شہوار حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دن قریش کی زبانی ایک بات سنی جس کی وجہ سے قریش کے لوگ آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے رفیق و صدیق محمد امین   کو طعن و تشنیع کر رہے تھے، آپ رضی اللہ تعالی عنہ فوراً آنحضور  کے پاس پہنچے اور دو زانو ہو کر نرم انداز میں آپ  سے دریافت کرنے لگے : اے محمد  قریش مکہ جو کہہ رہے ہیں کہ آپ نے ان کے معبودوں کو چھوڑ دیا ہے اور ان کو بے وقوف قرار دیا ہے کیا یہ بات حق اور درست ہے؟ حضور اقدس نے فرمایا: ہاں، میں اللہ کا رسول  اور اس کا پیغمبر ہوں، مجھے اللہ تعالی نے اس لیے مبعوث فرمایا کہ میں اس کے پیغام کو لوگوں تک پہنچاؤں اور میں تجھے بھی اللہ کی طرف حق کے ساتھ دعوت دیتا ہوں، خدا گواہ ہے کہ یہ بات حق ہے، اے ابوبکر  میں تجھے اللہ وحدہ لا شریک کی طرف دعوت دیتا ہوں یہ کہ تم غیر اللہ کی عبادت نہ کرو اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرو، چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمان ہو گئے ، انہوں نے اسلام قبول کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہ کیا۔ اس لیے کہ وہ حضور  کے سچے ہونے ، آپ  کی حسن فطرت اور عمدہ اخلاق سے واقف تھے، جب آپ نے لوگوں کی بات کو نہیں جھٹلایا تو بھلا االلہ تعالیٰ کی بات کو کیسے جھٹلاتے؟ نبی اکرم  فرماتے تھے: ” میں نے جس کو بھی اسلام کی دعوت دی اس نے پس و پیش کیا اور کچھ نہ کچھ غور و فکر کیا لیکن جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی تو انہوں نے بلا تردد اور بلا توقف اسلام کی دعوت کو قبول کیا ۔

چاشت کا وقت تھا، آنحضرت  بیت اللہ کے پاس تشریف فرما تھے، آپ   کا دہن مبارک ذکر و تسبیح سے معطر ہو رہا تھا کہ خدا کے دشمن ابو جہل کی آپ پر نظر پڑی جو اپنے گھر سے نکل کر بیت اللہ کے ارد گرد بے مقصد پھر رہا تھا ، وہ بڑے فخر و تکبر کے انداز میں حضور پر نور  کے قریب آیا اور از راہ مذاح کہنے لگا: اے محمد المسلم ! کیا کوئی نئی بات پیش آئی ہے؟ حضور اکرم اسلام نے فرمایا: ہاں، آج کی رات مجھے معراج کرائی گئی۔ ابو جہل ، ہنسا اور تمسخر کے انداز میں کہنے لگا: کس طرف؟ حضور نے فرمایا: بیت المقدس کی جانب ابو جہل نے تھوڑی دیر کے لیے ہنسنے سے توقف اختیار کیا، پھر حضور   کے قریب ہو کر آہستہ آواز میں متعجبانہ لہجہ میں کہنے لگا: رات آپ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی اور صبح کو آپ ہمارے سامنے پہنچ بھی گئے؟ پھر مسکرایا اور پوچھنے لگا اے محمد ! اگر میں سب لوگوں کو جمع کروں تو کیا آپ وہ بات جو آپ نے مجھے بتائی ہے ان سب کو بھی بتا دیں گے؟ حضور  نے فرما نے: ہاں۔ میں ان کو بھی بیان کر دوں گا۔ چنانچہ ابو جہل خوشی خوشی لوگوں کو جمع کرنے لگا اور ان کو آنحضور ملی ایم کی بتائی ہوئی بات بتانے لگا، لوگوں کا ایک ازدحام ہو گیا، لوگ اظہار تعجب کرنے لگے اور اس خبر کو نا قابل یقین سمجھنے لگے ، اسی دوران چند آدمی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اور ان کو بھی اس امید پر ان کے رفیق اور دوست کی خبر سنائی کہ ان کے درمیان جدائی اور علیحدگی ہو جائے کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ یہ خبر سنتے ہی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضور اسلام کی تکذیب کر دیں گے لیکن جب حضرت ابو بکر  نے یہ بات سنی تو فرمایا: اگر یہ بات حضور  نے فرمائی ہے تو یقینا درست فرمائی ہے۔ پھر فرمایا: تمہارا ستیا ناس ہو! میں تو ان کی اس سے بھی بعید از عقل بات میں تصدیق کروں گا ، جب میں صبح و شام آپ پر آنے والی وحی کی تصدیق کرتا ہوں تو کیا آپ   کی اس بات کی تصدیق و تائید نہیں کروں گا کہ آپ  کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی۔

پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو چھوڑا اور جلدی سے اس جگہ پر پہنچے جہاں حضور نبی کریم مسلم تشریف فرما تھے اور لوگ آپ میں اسلام کے اردگرد بیٹھے تھے اور حضور ان کو بیت المقدس کا واقعہ بیان کر رہے تھے، جب بھی حضور کوئی بات ارشاد فرماتے تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے کہ آپ  نے سچ فرمایا، آپ  نے سچ فرمایا۔ پس اس روز سے آنحضرت  نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام ” الصدیق“ رکھ دیا

جب کسی نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خبر دی کہ اے ابو بکر آپ کے ساتھی کو مشرکین نے پکڑ لیا ہے آپ برہنہ سر دوڑتے ہوئے بیت اللہ شریف پہنچے تو دیکھا کہ مشرکین نے رسول اللہ کو ایک جگہ پر گرایا ہوا ہے اور آپٹوٹ پڑے ہیں اور حضور کو تعنن کہہ رہے ہیں تو وہی شخص ہے جس نے کئی معبودوں کو ایک ہی معبود بنا دیا ہے تو حضرت ابوبکر نے اپنی جان کی بادی لگائی کسی کو دھکا دیا اور کسی کو مارا اور پھر فرمایا تمہارا ستیار ہو کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتی ہوں جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور وہ تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلائی دل لے کر ایا ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کیا تم مجھے جواب نہیں دو گے خدا کی قسم ابوبکر کا ایک لمحہ ال فرعون کے مومن جیسے شخص زمین کے ہزاروں لمحوں سے بہتر ہےاس ادمی نے اپنا ایمان چھپا رکھا تھا مگر اس شخص نے اپنے ایمان کا اعلان کیا