غضنفر جن کربلا کے منظر ایک بہت ہی درد اور غمگین منظر تھا۔ یہ ایک ایسا منظر تھا جو دنیا کے سب مسلمانوں کے دل پر ایک آگ لگا دیا ہے۔ غضنفر جن کربلا کے منظر میں حضرت امام حسین (ع) اور انکے صحابہ اور اہل بیت (ع) کو شہید کر دیا گغضنفر جن کربلا کے منظر ایک بہت ہی درد اور غمگین منظر تھا۔ یہ ایک ایسا منظر تھا جو دنیا کے سب مسلمانوں کے دل پر ایک آگ لگا دیا ہے۔ غضنفر جن کربلا کے منظر میں حضرت امام حسین (ع) اور انکے صحابہ اور اہل بیت (ع) کو شہید کر دیا گیا تھا۔ آپ شہیدیت انسانیت کے لیے ایک ایسی پیشکش تھی جیسے کبھی نہیں بھولا جانا چاہیے۔
جب اللہ نے اس زمین کو انسانوں کے لیے چنا تو جنات پر یہ حکم نافذ کیا کہ وہ رات تک محدود ہو جا ئے اور دن کو زمین میں چھپ جا ئے ۔ مگر افسوس جنات میں کچھ نے اس بات کو تسلیم کر لیا اور کچھ نے نہیں کیا ۔ تو جنات اور فرشتوں کی جنگ ہو ئی جس جنگ میں جنات کے کچھ قبا ئل نے اولیاں کے ہاتھ پر بعیت کی اور فرشتوں کے ساتھ جنات سے لڑھنے لگے ان قبا ئل میں سے قبلہ عازاز یل اور قبیلہ کبری اور میرا قبلہ شامل تھا جس کو قبلہ غضنفر ضافر کہتے ہیں جب ہم اللہ کے کرم اور فرشتوں کی مدد سے جنات پر فتح حاصل کی جنات کو رات کے لیے محدود کر دیا گیا اور انسان کو دن کو رکھ دیا ۔ بس مجھے علیاں نے یہ زمہ داری دی گی کہ میں راہ نیت پر بیٹھو اور کسی جن کو انسان کی دنیا میں آنے نا دو بس یہ وقت کسی طرح گزر ہی رہا تھا کہ اتینی دیر میں میرے پا سیہ خبر پہنچی کہ اولاد اولیا پر آدم زاد ظلم کر رہے ہیں ۔ جب میں دیکھا میرے مولا علی کا بیٹا کا ہاتھ اپنے بیٹے کی لاش پر ہے اور ایک ہاتھ زمین کربلا ہر تھا بس اللہ اکبر کہ کر مو لا نا جیسے برجی کو نکالا علی اکبر کے خون سے زمین لال ہونے لگی علی اکبر کا بیٹا فرمانے لگا دیکھ دادا ابرا ہیم نہ میری آنکھوں پر پٹی ہے نہ میرے اس بیٹے کے ہاتھ بندے ہو ئے ہیں میری یہ قر بانی اللہ کے دین کے لیے ہے ،اتنے میں میں عرض کرنے لگا اے اب تراب کے بیٹے یہ آدم زات ان کیا اتنی مجال یہ ا پ کو رولائے آپ کے بیٹے کو شہید کرے مجھے حکم دے میں لاکھوں جنات اپنے ساتھ لایا ہوں میں ان آدم زات کو ان کی اوقات یاد دیلتا ہوں بس امام حسین نے فرما یا ضافر ٹھہرویہ شجاعت کا امتۃان نہیں صبر کا امتحان ہے یہ دیکھو جبرائیل اور میکائل کھڑے ہیں ضافر دیکھ یہ آسمان کیا کہتا ہے ضافر دیکھ میرے لیے نصرت ہے ہر قبائل کے لوگ کھڑے ہےجب میں انہیں مدد کے لیے نہیں کہا تو تم بھی صبر کروں ۔ اور دیکھو اولاد آدم نے کہا تھا کچھ خاص آ ئے گے وہ خاص کیوں خاص ہے میں دیکھتا رہا میری قوم روتی رہی اتنے میں میرے امام اپنی ننے بچے کو لے کر آ ئے اور آدم ذات سے کہنے لگے اے لوگوں اس معصوم بچے کو پانی پیلا دو ں د یکھا اب تراب کا پوتا کیسے تڑپ رہا تھا جنا ت اور فرشتے رو رہے تھے میں دیکھتا رہا میں عرض کی اے میرے مولا کے بیٹے مجھے حکم دے یہ محل فرات آ پ کے قدموں میں رکھ دوں امام حسین نے فرما یا اے ضافر تو میری خوشی چا ہتا ہے اور میں اس کی خو شی چا ہتا ہوں جو چا ہتا ہے کہ میں اور میری کٹ جا ئے ہماری لا شوں پر گھوڑے دہڑا ئے جا ئے گے جب تک ہم ان راستروں سے نہیں گزرے گےتو ہما را دین بچے گا ۔ضافر نے کہا میں اور میری قوم کربلا کے طواف کرتے رہے اور امام حسین ایک ایک کر کے قربانی دیتے رہے کبھی قا سم کے ٹکڑو ں کو دیکھا کبھی عبا س کےبازوں کو دیھا کبھی لاشے کو دیکھا کبھی حر کے گلے کو دیکھا بس اتنی دیر میں میرے مو لا حسین کا میدان کا انا تھا مجھے جنات اور فرشتوں کی جنگ یاد آ گئی جو میں امام حسین کے بابا کے ساتھ لڑھی تھی ہی جو ش تھا وہی تڑپ تھی آدم ذات گبھرانے لگے جب ہزاروں نے مات کھا ئی توآدم ذات نمیں سے کسی نے کہا یہ علی کا بیٹا ہے اسے چاروں طرف گھیر لوں نیزے ، تیر دور سے ما روں کبھی نا کبھی حسین ضرور زمین پر گھیرے گا بس ہزاروں لوگوں نے میرے مولا کو گھیر لیا اور کسی نے خیام کو آ گ لگا دی میرے مو لا کبھی خیام کی آگ بجاتے کبھی میادن میں جاتے میں کہتا رہا میرے مولا مجھے حکم دے ان آدم زات کو ان کی اوقت دیکھاؤں اتنی دیر میں آ واز آ ئی غیب سے آواز آ ئی حسین تم کامیاب ہو ئے حسین گھوڑے سے زمین پر آئے لوگ دیکھ رہے تھے امامحسین سجدے میں تھے اور دیکھ رہے تھے کیسے ایک عاشق اپنی محبوب کو راضی کر رہا ہے بس کسی میں ہمت نہ تھی کچھ کہ سکے اتنے میں ایک آدم ذات آیا اور کہنے لگ حسین کا سر میں کاٹو گا مجھے اس کے سر جتنا سونا ملے گا اور میں کہنے لگا بدبخت پہنچا ن خود کو تو اشرفاالمخلوقات کیوں اپنی جنت کو گوا رہے ہو اتنے میں کسی آدم نے ان کا سر ا کا ٹ دیا جیسے ان کا سر کاٹ کر نیزے پر آ یا تو ہم نے دیکھا حسین کا چہرا مبارک اللہ کا ذکر کر رہا ہے میں اور میری قوم نے سجدہ کیا اور ہم نے تسلیم کیا انسان اشرف المخلو قات اگر ایسے انسان کو سجدہ کیا جا ئے تو ایک سجدہ یا بلکہ لا کھوں سجدے کیے جا ئے ۔
غضنفر جن کربلا کے منظر کو یاد رکھنا بہت ہی جروری ہے تکی ہم ہے شہیدیت سے سکھ ساکن اور اپنی زندگی میں ایسا عمل میں لا سکوں۔ غضنفر جن کی کربلا کے منظر سے ہم سکھانا چاہتے ہیں کی انسانیت کے لیے سچی اور سچی کے لیے لاڈنا کٹنا مہاتپورن ہے۔ ہم سکھانا چاہی کی آتنکواڑ اور ظلم کے خلاف لڑنا کٹنا مہاتپورن ہے۔ ہمیں سکھانا چاہی کی مظلوموں کی مدد کرنا کٹنا مہاتپورن ہے۔غضنفر جن کربلا کے منظر کو یاد رکھنا بہت ہی جروری ہے تکی ہم ہے شہیدیت کو ایک ایسی پیشکش بنا جس سے دنیا میں سکھ اور شانتی آسکے۔ ہم سکھانا چاہی کی غضنفر جن پر کربلا کے منظر سے سکھر ہم دنیا میں ایسی طاقت شکتی بن سکوں جو آتنک واڑ اور ظلم کے خلاف لڑیں اور مظلوموں کی مدد۔
جب اللہ نے اس زمین کو انسانوں کے لیے چنا تو جنات پر یہ حکم نافذ کیا کہ وہ رات تک محدود ہو جا ئے اور دن کو زمین میں چھپ جا ئے ۔ مگر افسوس جنات میں کچھ نے اس بات کو تسلیم کر لیا اور کچھ نے نہیں کیا ۔ تو جنات اور فرشتوں کی جنگ ہو ئی جس جنگ میں جنات کے کچھ قبا ئل نے علیا ں کے ہاتھ پر بعیت کی اور فرشتوں کے ساتھ جنات سے لڑھنے لگے ان قبا ئل میں سے قبلہ عازاز یل اور قبیلہ کبری اور میرا قبلہ شامل تھا جس کو قبلہ ضافر کہتے ہیں جب ہم اللہ کے کرم اور فرشتوں کی مدد سے جنات پر فتح حاصل کی جنات کو رات کے لیے محدود کر دیا گیا اور انسان کو دن کو رکھ دیا ۔ بس مجھے علیاں نے یہ زمہ داری دی گی کہ میں راہ نیت پر بیٹھو اور کسی جن کو انسان کی دنیا میں آنے نا دو بس یہ وقت کسی طرح گزر ہی رہا تھا کہ اتینی دیر میں میرے پا سیہ خبر پہنچی کہ اولاد اولیا پر آدم زاد ظلم کر رہے ہیں ۔ جب میں دیکھا میرے مولا علی کا بیٹا کا ہاتھ اپنے بیٹے کی لاش پر ہے اور ایک ہاتھ زمین کربلا ہر تھا بس اللہ اکبر کہ کر مو لا نا جیسے برجی کو نکالا علی اکبر کے خون سے زمین لال ہونے لگی علی اکبر کا بیٹا فرمانے لگا دیکھ دادا ابرا ہیم نہ میری آنکھوں پر پٹی ہے نہ میرے اس بیٹے کے ہاتھ بندے ہو ئے ہیں میری یہ قر بانی اللہ کے دین کے لیے ہے ،اتنے میں میں عرض کرنے لگا اے اب تراب کے بیٹے یہ آدم زات ان کیا اتنی مجال یہ ا پ کو رولائے آپ کے بیٹے کو شہید کرے مجھے حکم دے میں لکھوں جنات اپنے ساتھ لایا ہوں میں ان آدم زات کو ان کی اوقات یاد دیلتا ہوں بس امام حسین نے فرما یا ضافر ٹھہرویہ شجاعت کا امتۃان نہیں صبر کا امتحان ہے یہ دیکھو جبرائیل اور میکائل کھڑے ہیں ضافر دیکھ یہ آسمان کیا کہتا ہے ضافر دیکھ میرے لیے نصرت ہے ہر قبائل کے لوگ کھڑے ہےجب میں انہیں مدد کے لیے نہیں کہا تو تم بھی صبر کروں ۔ اور دیکھو اولاد آدم نے کہا تھا کچھ خاص آ ئے گے وہ خاص کیوں خاص ہے میں دیکھتا رہا میری قوم روتی رہی اتنے میں میرے اماماپنی ننے بچے کو لے کر آ ئے اور آدم ذات سے کہنے لگے اے لوگوں اس معسوم بچے کو پانی پیلا دو نں د یکھا اب تراب کا پوتا کیسے تڑپ رہا تھا جنا ت اور فرشتے رو رہے تھے میں دیکھتا رہا میں عرض کی اے میرے مولا کے بیٹے مجھے حکم دے یہ محل فرات آ پ کے قدموں میں رکھ دوں امام حسین نے فرما یا اے ضافر تو میری خوشی چا ہتا ہے اور میں اس کی خو شی چا ہتا ہوں جو چا ہتا ہے کہ میں اور میری کٹ جا ئے ہماری لا شوں پر گھوڑے دہڑا ئے جا ئے گے جب تک ہم ان راستروں سے نہیں گزرے گےتو ہما را دین بچے گا ۔ضافر نے کہا میں اور میری قوم کربلا کے طواف کرتے رہے اور امام حسین ایک ایک کر کے قربانی دیتے رہے کبھی قا سم کے ٹکڑو ں کو دیکھا کبھی عبا س کےبازوں کو دیھا کبھی لاشے کو دیکھا کبھی حر کے گلے کو دیکھا بس اتنی دیر میں میرے مو لا حسین کا میدان کا انا تھا مجھے جنات اور فرشتوں کی جنگ یاد آ گئی جو میں امام حسین کے بابا کے ساتھ لڑھی تھی ہی جو ش تھا وہی تڑپ تھی آدم ذات گبھرانے لگے جب ہزاروں نے مات کھا ئی توآدم ذات نمیں سے کسی نے کہا یہ علی کا بیٹا ہے اسے چاروں طرف گھیر لوں نیزے ، تیر دور سے ما روں کبھی نا کبھی حسین ضرور زمین پر گھیرے گا بس ہزاروں لوگوں نے میرے مولا کو گھیر لیا اور کسی نے خیام کو آ گ لگا دی میرے مو لا کبھی خیام کی آگ بجاتے کبھی میادن میں جاتے میں کہتا رہا میرے مولا مجھے حکم دے ان آدم زات کو ان کی اوقت دیکھاؤں اتنی دیر میں آ واز آ ئی غیب سے آواز آ ئی حسین تم کامیاب ہو ئے حسین گھوڑے سے زمین پر آئے لوگ دیکھ رہے تھے امامحسین سجدے میں تھے اور دیکھ رہے تھے کیسے ایک عاشق اپنی محبوب کو راضی کر رہا ہے بس کسی میں ہمت نہ تھی کچھ کہ سکے اتنے میں ایک آدم ذات آیا اور کہنے لگ حسین کا سر میں کاٹو گا مجھے اس کے سر جتنا سونا ملے گا اور میں کہنے لگا بدبخت پہنچا ن خود کو تو اشرفاالمخلوقات کیوں اپنی جنت کو گوا رہے ہو اتنے میں کسی آدم نے ان کا سر ا کا ٹ دیا جیسے ان کا سر کاٹ کر نیزے پر آ یا تو ہم نے دیکھا حسین کا چہرا مبارک اللہ کا ذکر کر رہا ہے میں اور میری قوم نے سجدہ کیا اور ہم نے تسلیم کیا انسان اشرف المخلو قات اگر ایسے انسان کو سجدہ کیا جا ئے تو ایک سجدہ یا بلکہ لا کھوں سجدے کیے جا ئے ۔
یا تھا۔ آپ شہیدیت انسانیت کے لیے ایک ایسی پیشکش تھی جیسے کبھی نہیں بھولا جانا چاہیے