فتح مکہ کے دن حضورﷺ نے حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو اپنے کندھوں پہ چڑھایا تو حضرت علی فرماتے ہیں میری قوت و بلندی کا عالم یہ ہوگیا کہ اگر میں چاہتا تو آسمان کے کنارے تک پہنچ جاتا __
(المستدرک۔ خصائص ج ۱ ص ۲۶۴)
شیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی علیہ رحمة نے اس واقعہ کو کچھ اس طرح بیان فرمایا کہ حضورﷺ نے کعبے سے بت اتارنے کے لئے حضرت مولا علی المرتضی کو طلب فرمایا _
مولا علی علیہ السلام حاضر ہوئے تو حضورﷺ نے فرمایا اے علی نیچھے والے بتوں کو تو میں نے اتار کر پھینک دیا ہے ، اب اوپر والے توڑنے ہیں __
عرض کیا حضور ان کو بھی توڑ دیں _ فرمایا وہ اونچے ہیں وہاں تک میرا ہاتھ نہیں پہنچتا ، عرض کیا حضور میں اس فلسفہ کو نہیں سمجھا کہ چاند کو زمین پہ کھڑے ہوکر انگلی کے اشارے سے توڑ دیا تھا ، اور اب کیہ رہے ہیں کہ ہاتھ نہیں پہنچ رہا ، پھر ایسا کریں کہ میرے کندھوں پہ تشریف فرما ہوکر اتار دیں __
فرمایا اے علی تم نے ٹھیک کہا مگر تم نبوت کا بوجھ نہیں اٹھا سکو گے _ یارسول اللہﷺ! پھر کیا کیا جائے ؟
فرمایا اے علی تم میرے کندھوں پہ سوار کر بتوں کو گرادے ، مولا علی علیہ السلام حضورﷺ کے کندھوں پہ چڑھ کر بت اتارنے لگے ، حضورﷺ نے پوچھا اے علی کہاں پہنچے ہو ؟
عرض کیا حضور اگر حکم ہو تو عرش عظیم کے پائے کو پکڑ کر نیچھے لے آؤں __ مولا علی علیہ السلام کندھوں پہ سواری کر اتنے بلند ہوگئے تو معراج والے آقا حضورﷺ کی بلندی و مرتبت کا اندازہ کون کر سکتا ہے __
الغرض بت ٹوٹ گئے مولا علی نیچے اترے تو مسکرا رہے تھے _ حضورﷺ نے مسکرانے کا سبب پوچھا تو علی نے عرض کیا اس لئے مسکرا رہا ہوں کہ عرش معلی سے چھلانگ لگائی ہے اور کچھ بھی نہیں ہوا __ سرکار نے فرمایا! ہو بھی کیسے سکتا تھا چڑھانے والا میں تھا اتارنے والا جبرائیل
مدارج النبوة ج ۲ ص ۲۸۵ البرہان ص ۲۳۵