تعارف
آپ کا اسم گرامی عثمان ہے کنیت ابو عبداللہ اور ابو عمر ہے آپ کا لقب ذوالنورین ہے آپکے والد عفان ابن العاساور والدہ اروا بنت کریزہیں آپ کا سلسلہ نسب عبدالمنان پر حضور نبی کریم سے ملتا ہے آپ کی نانی ایم حکیم بیضا، جناب عبدالمطب کبیتی عور حضور نبی کریم کی سگی پھوپھی تھیں
پیشہ
حضرت سیدنا عثمان غنی واقعہ فیل کے چھ برس بعد طائف میں پیدا ہوئے اپ کا شمار بنی امیہ کے معززین میں ہوتا تھااپ نے دور جاہلیت میں رائج تمام مروجہ علوم پر عبور حاصل کیا اور اپ کا شمار قریش کے ان افراد میں ہوتا تھا جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے اپ نے اپنے خاندانی پیشے کو اپنا روزگار بنایا اور اپ ابتدا میں اپنا سامان تجارت لے کردیگر ممالک کو تجارت کرتے تھے
لقب
حضرت سیدنا عثمان غنی ابتدا سے ہی اپنی فیاضی اور سخاوت کی بنا پر مشہور تھےاسی لیے اپ کو غنی کا لقب ملا
قبول اسلا م
آپ نے بسد نبوی کے آغاز میں حضرت ابوبکر صدیق کی تحریک پر اسلام قبول کیااور دین اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا مال و اسباب سب دین اسلام اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا
نکا ح
آپ کی ایک عادت اپ کی نیک عادات کی بنا پر حضور نبی کریم نے اپنی دو صاحبزادیوں حضرت سیدہ رقیہ اور حضرت سیدہ ام کلثوم کا نکاح یا بعد دیگرے اپ سے کیا
خلا فت
حضرت سیدنا عثمان غنی حضرت سیدنا عمر فاروق کی شہادت کےبعد خلیفہ منتخب ہوئے اپ نے اپنے دور خلافت میں دین اسلام کی ترقی و ترویج کے لیے بے پناہ خدمات انجام دی اپ کا زمانہ خلافت تقریبا 12 برس پر محیط ہے اور اپ کے زمانہ خلافت میں دین اسلام کی سرحدیں ہند تک پھیل گئی
حکو متی اقداما ت
حضرت سیدنا عثمان غنی کے زمانہ خلافت میں بیت المال سے موذن کے لیے تنخواہ مقرر کی گئی عیدین کی نماز سے قبل خطبے کا آغاز ہوا لوگوں کو زمینوں کے مالکانہ حقوق دیے گئے بیت المال کے جانوروں کے لیے چراگاہیں تعمیر کی گئی تکبیر میں اذان کے نسبت اواز پست رکھنے کا حکم دیا گیا تمام مسلمانوں کو ایک قرات پر جمع کیا گیا اور جمعہ کی اذان کے ساتھ دوسری اذان کا اضافہ کیا گیا اور اس کے علاوہ بھی کئی دیگر احسن امور کا اغاز کیا گیا
وفات
حضرت سیدنا عثمان غنی کو 18 ذیحج بروز جمعہ 35 ہجری کو شر پسندوں نے شہید کیا بوقت شہادت حضرت سیدنا عثمان غنی کی عمر مبارک ٨٢ برس تھی اپ کو جنت البقی میں دفن کیا گیا
قبول اسلام کا واقعہ
حضور نبی کریم نے جس وقت نبوت کا اعلان کیا اس وقت حضرت سیدنا عثمان غنی کی عمر مبارک 34 برس تھی حضرت سیدنا عثمان غنی ابتدا میں اسلام قبول کرنے والے چند مسلمانوں میں سے تھے اپ نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق کی دعوت پر اسلام قبول کیا حضرت عثمان غنی اپنے قبول اسلام کے واقعے کے متعلق فرماتے ہیں کہ جس وقت حضور نبی کریم نے نبوت کا اعلان کیا اس وقت ابتدا میں چند افراد نے اسلام قبول کر لیا میں ایک روز اپنے خالہ سعدی بنت قریب کے گھر گیا خالہ کے گھر حضور نبی کریم کے دعوی نبوت کا تذکرہ چھڑ گیا میری خالہ نے حضور نبی کریم کے دعوے کی تصدیق کرتے ہوئے اپ کی تعریف فرمائی اور کہا کہ وہ صادق اور امین ہیں اور وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے حضرت سیدنا عثمان غنی فرماتے ہیں پھر انہوں نے کاہنوں کے انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہاعثمان تمہاری دو ازواج ہوں گے جو نہایت حسین اور نیک سیرت ہو گی تم نے اس سے پہلے کبھی ایسی حسین عورتیں نہ دیکھی ہوں گی اور نہ انہوں نے تم جیسا خاوند یہ عورتیں نبی کی صاحبزادیاں ہوں گی اور پھر انہوں نے کہا کہ وہ نبی محمد رسول اللہ ہےحضرت سیدنا عثمان فرماتے ہیں کہ خالہ کی باتیں سننے کے بعد میں حضرت ابوبکر کے پاس گیا جو اس وقت اسلام قبول کر چکے تھے میں نے اپنی خالہ کی تمام باتیں ان کے گوش گزار گئی تو انہوں نے مجھ سے فرمایا عثمان تم سمجھدار اور معاملہ فہم ہو اور ہر کام میں غور و فکر سے کام لیتے ہو تم جانتے ہو کہ یہ پتھر کے بے جان بت نہ تو کسی کو کچھ فائدہ دیتے ہیں نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اگر یہ پتھر کے بت ہمیں کچھ فائدہ و نقصان پہنچا نہیں سکتے تو یہ ہمارے رب کیسے ہو سکتے ہیں حضرت سیدنا عثمان فرماتے ہیں اس کے بعد اپ نے مجھے اسلام کی دیگر باتیں بتائی میں ان کی باتوں سے متاثر ہوا اور ان سے کہنے لگا اپ درست ہےکہ یہ پتھر کے بت واقعی ہمارے معبود نہیں ہو سکتے پھر حضرت ابوبکر صدیق نے مجھ سے کہا کہ تمہاری خالہ نے درست کہا حضور نبی کریم کو اللہ تعالی نے نبی برحق بنا کر بھیجا ہے تاکہ وہ مخلوق خدا کو اللہ تعالی کی وحدانیت کا درس دیں حضرت سیدنا عثمان غنی فرماتے ہیں کہ مجھ پر حضرت ابوبکر صدیق کی باتوں کا اثر ہوا اور انہوں نے جس طرح دلائل کے ساتھ مجھے دین اسلام کی حقانیت سے اگاہ کیا اس سے میرے دل میں دین اسلام کے متعلق کسی قسم کا کوئی شبہ باقی نہ رہا پھر اپ نے مجھے دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دی حضرت عثمان غنی فرماتے ہیں کہ میں شش و پنج میں مبتلا تھا کیونکہ میرا خاندان بنو ہاشم کی طرح حضور نبی کریم کے اعلان نبوت کے بعد ان کا دشمن ہو چکا تھا اور میرے خاندان کا ایک سردار ابو جہل حضور نبی کریم سے دشمنی میں پیش پیش تھا اس دوران حضور نبی کریم حضرت سیدنا علی المرتضی کے حملہ اس جگہ سے گزرے جہاں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق نے حضور نبی کریم کو دیکھا تو تعظیما کھڑے ہو گئے میں بھی ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا حضور نبی کریم نے مجھے دیکھا اور فرمایا اے عثمان اللہ تعالی تمہیں جنت کی مہمانی کے لیے بلاتا ہے تم اس کی دعوت قبول کرو اللہ تعالی نے مجھے تمہاری اور تمام مخلوق کے رجد و ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا ہے اسلام قبول کرنے میں ہی سب کی بھلائی اور بہتر ہی ہے اور میں تمہیں اسی بھلائی اور بہتری کی دعوت دیتا ہوں حضرت سیدنا عثمان غنی نے جب حضور نبی کریم کی زبان مبارک سے یہ کلمات سنے تو اپ نے بغیر کسی تردد کے اسلام قبول کر لیا اب
چوتھے مسلما ن
اسلام قبول کرنے والے اس وقت چوتھے مسلمان تھے حضرت عثمان غنی کی خالہ کی باتیں بھی ثابت ہوئی اور حضور نبی کریم کی دو صاحبزادیاں اپ کے نکاح میں آئی حضرت سیدنا عثمان غنی فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم کی ملاقات سے پہلے حضرت سیدنا ابوبکر نے اپنے علم حسن خلق اور صحبت نبوی کی تاثیر سے اور حضور نبی کریم کی محبت میں ایسی گفتگو فرمائی تھی کہ میرے دل میں حضور نبی کریم کی صحبت کی خواہش پیدا ہو گئی تھی حضرت ابوبکر صدیق کے اس عشق کی بدولت بے شمار لوگ دائرہ اسلام میں شامل ہوئے اور ان کی تبلیغ میں ایک کشش تھی جس کی وجہ سے جو بھی ان کی بات سنتا وہ ان کو رد نہ کرتا تھا