اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے فضال بہت ہیں ان حضرا ت کی شان میں جو آئتیں اور حدیثیں وارد ہوئی ہیں۔ ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ:
1۔ اہل بیت کرام سے اللہ تعالیٰ نے رجس و ناپاکی کو دور فرمایا اور انھیں خوب پاک کیا اور جو چیز ان کے مرتبہ کے لائق نہیں اس سے ان کے پرور دگار نے انھیںمحفوظ رکھا۔
2۔ اہل بیت رسول پر دوزخ کی آگ حرام کی۔
3۔ صدقہ ان پر حرام کیا گیا کہ صدقہ دینے والوں کا میل ہے۔
4۔ اوّل گروہ جس کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے حضور کے اہل بیت ہیں۔
5۔ اہل بیت کی محبت فرائض دین سے ہے اور جو شخص ان سے بغض رکھے وہ منافق ہے۔
6۔ اہل بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی سی ہے۔ جو اس میں سوا ر ہوا اس نے نجات پائی اور جو اس سے کترایا ،ہلاک وبردبا ہوا۔
7۔ اہل بیت کرام اللہ کہ وہ مضبوط رسی ہیں جسے مضبوطی سے تھامنے کا ہمیں حکم ملا۔
ایک حدیث شریف میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تم میں دو چیزیں چھوڑتا ہوں جب تک تم انھیں نہ چھوڑ و گے ہر گز گمراہ نہ ہوگے ایک کتاب اللہ (قرآن کریم) ایک میری آل۔
ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو تین خصلتیں سکھاؤ، اپنے نبی کی محبت اور اہل بیت کی محبت اور قرآن پاک کی قرا ت۔
غرض اہل بیت کرام کے فضائل بے شمار ہیں۔
حضرت بی بی فاطمہ کے فضائل کیا ہیں؟
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ اس لیے رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اور اس کے ساتھ محبت کرنے والوں کو دوزخ سے خلاصی عطا فرمائی۔ ایک حدیث میںہے کہ حضرت فاطمہ پاک دامن ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے ان پر اور ان کی اولاد پر دوزخ کو حرام فرمایا۔
ایک حدیث میں ہے کہ فاطمہ میرا جز ہیں جو انھیں ناگوار ، وہ مجھے ناگوار اور جو انھیں پسندوہ مجھے پسند۔ ایک اور حدیث میںہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے فاطمہ ! تمہارے غضب سے غضبِ الٰہی ہوتا ہے ، اور تمھاری رضا سے اللہ راضی۔
ایک اور حدیث میں حضورپر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے فاطمہ ! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم ایمان ولی عورتوں کی سردار ہو۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: مجھے اپنے اہل میں سے سب سے زیادہ پیاری فاطمہ ہیں۔
حضرت امام حسن علیہ السلام اور امام حسین السلام کے کیا فضائل ہیں؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:
1۔ حسن و حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔
2۔ جس نے ان دونوں (حضرت امام حسن اور امام حسین) سے محبت کی ، مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت کی۔
3۔ حسین و حسن جنتی جوانوں کے سردار ہیں۔
4۔ جس شخص نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں کے والد اور والدہ سے محبت رکھی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔
الغرض اہل بیت کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہم اہلسنت و جماعت کے متقداء ہیں جو ان سے محبت نہ رکھے وہ بارگاہ الٰہی سے مردور و ملعون ہے اور حضرت حسنین یقینا اعلیٰ درجہ کے شہیدوں میں ہیں۔ ان میں سے کسی کی شہادت کا انکار کرنے والا گمراہ بددین ہے۔
صحابہ کرام کی محبت کے بغیر اہل بیت کی محبت کام آئے گی یا نہیں؟
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے آل اور اصحاب سے محبت اور ان دونوں کے ادب وتعظیم کو لازم جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ تو جس طرح اہل بیت کرام کی محبت کے بغیر آدمی مسلمان نہیں رہ سکتا اسی طرح صحابہ کرام کی محبت کے بغیر بھی ایمان قائم نہیں رہ سکتا۔ دل میں ان دونوں کی محبت و عقیدت کو جگہ دینا فرائض دین سے ہے اور دونوں کی تعظیم و تکریم حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر میں داخل ہے۔ اہل بیت کرام اس امت کے لیے اگر کشتی کی مانند ہیں تو صحابہ کرام ستاروں کی رہنمائی حاصل کئے بغیر چلنے والی کشتیاں ساحل مراد تک پہنچنے سے پہلے ہی طوفان کی نذر ہو جاتی ہیں۔ حدیث شریف میں وارد ہے کہ حضرت مولا علی کی محبت اور ابو بکر و عمر کا بغض کسی مسلمان کے دل میں جمع نہیں ہو سکتا۔