خداوند کريم نے عفو و درگزر کو ” تقویٰ ” کے نہايت ہی قريب قرار ديا ۔
وَ اَنْ تَعْفُوْ آ َ اَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ ۔ ( بقرہ : ٢٣٧ )
اگر تم معاف کردو تو يہ ” تقویٰ ” سے قريب تر ہے ۔
ايک اور آيت ميں قصور کرنے والوں کو معاف کر دينے کااشارہ اس طرح فرمايا :۔
وَ لْيَعْفُوْ ا وَ لْيَصْفَحُوْ اط اَلاَ تُحِبُّوْ نَ اَنْ يَّغْفِرً اللہُ لَکُمْ وَ اللہُ غَفُوْرُ، رَّ حِيْمُ، ہ ( النور : ٢٢ )
” چاہے کہ وہ معاف کر ديں اور درگذر کريں ۔کيا تم يہ پسند نہيں کرتے کہ خدا تم کو معاف کر دے ۔اور اللہ تعالٰی معاف کرنے والا اور مہربان ہے ” ۔
غصّہ اور غضب کے وقت ضبط و سکون کے حاملين اور معاف کر دينے والوں کے بارے ميں اللہ تعالٰی نے ارشاد فرمايا :۔
وَ اِذَ امَا غَضِبْوُ اھُمْ يَغْفِرُ وُ نَ ہ ( شوریٰ : ٣٧ )
” اور جس وقت غصّہ آئے تو وہ معاف کرتے ہيں “۔
وہ لوگ جو عفوو درگزر کو اپنا شعار بناتے ہيں اللہ تعالٰی نے سورۃ آل عمران آيت ١ ميں ان کی مغفرت اور ان کے لئے وسيع جنّت کا وعدہ فرمايا ہے ۔
سورۃ شوریٰ ميں صبر اور معاف کر دينے کی صفت کو بڑی اہميّت کی بات قرار ديا گيا ۔
وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذَالِکَ لَمِنْ عَزِْم ا ْلاُ مُوْ رِ ۔ ( شوریٰ : ٤٣ )
” جس نے صبرکيا اور معاف کيا تو بڑی ہمّت کی بات ہے ” ۔
عفوودرگزر کی فضيلت ميں ايک بار رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا :۔
و ما زاد اللہ رجلاً يفوٍ الا عزّا ۔
” درگزر کرنے والے کی اللہ تعالٰي عزت بڑھا ديتا ہے “۔
اللہ تعالٰی نے قرآنِ حکيم ميں محسنين کی جن صفات کے ساتھ تعريف کی ان ميں معاف اور درگزر کرنے کی صفت کو بھی گِنا ۔
وَ اْ لکَا ظِمِيْنَ ا لْغَيْظَ وَ ا لَعَا نِيْنَ عَنِ النَّاسِ ط وَ اللہُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ ہ ( آل عمران : ١٣٤ )
” غصّے کو پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے،اور اللہ نيکی کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے “۔
ترمذی شريف کی حديث ہے کہ ايک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے آکر کہا “: يا رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم ! ميں اپنے خادم کا قصور کتنا معاف کروں “۔ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا “: ہر روز ستر بار “۔
حضرت ابو سعود صحابی رضی اللہ عنہ کا بيان ہے ،وہ فرماتے ہيں کہ ” ايک دفعہ ميں اپنے غلام کو پيٹ رہا تھا،پيچھے سے آواز آئی “جان لو،جان لو “۔ديکھا تو حضور نبی کريم صلی اللہ عليہ وسلم ارشاد فرمارہے تھے “:ابو سعود ! جتنا تم خادم پر قابو رکھتے ہو اس سے زيادہ تم پر خدا قابو رکھتا ہے “۔ابوسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں کہ اس بات کا مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ پھر ميں نے کسی خادم کو نہ مارا “۔