You are currently viewing حضرت علی بن ابی طا لب کا مختصر تعارف  

حضرت علی بن ابی طا لب کا مختصر تعارف  

 آپ کا نا م مع کنیت ابو تراب علی بن ابی طا لب ہے آپ ہا شمی النسب اور قریشی الحسب ہیں آپ رسول اللہ ﷺ کی بیٹیی حضرت فا طمہ کے شو ہر ہیں اور حسنین کریمین و بدرین کے والد ہیں آپ رسول اللہ کے چچا ذار بھا ئی اور دا ما د بھی تھے

 آپ کے والد بطحا کے سردار اور علمبر دار تھے آپ کے والد نے ہما رے پیا رے پیغمبر حضرت محمدکی کم عمری میں یتیمی کی حا لت میں اور پیغمبری کی حا لت میں آپ ﷺ کی مدد فر ما ئی  آپ کی والدہ متحر مہ فا طمہ بنت اسد الہا شمیہ بڑی نیک اور متقی خا تو ن تھیں آپ کی والدہ سا بقین اسا م میں سے ہیں آپ میا ج رین میں پیش پیش رہیں حضور ان کی زیا رت کے لئے تشریف لے جا یا کر تے تھے اور اپنا کر تہ ان کے کفن میں لگا یا اور اپنی دعاوں سے ان کو دنیا سے رخصت کیا

آپ چو تھے خلیفہ تھے اور آپ ان عشرہ مبشرہ میں سے ہیں جن کو دنیا میں ہی جنتی ہو نے کی خو شخبری سنا دی گئی  آپ مے عنا ن حکو مت بھی سنبھا لی اور مز ید عہدو ں پر فا ئز ہو ئے

isalmi-man-chalo-masjid-com

آپ نے 9 سال کی عمر میں اسلا م قبو ل کر لیا اور پھر بیت نبو ی میں پر وان چڑھے آپ ﷺ نے ان کی تعلیم کا خو ب انتظا م فر ما یا حضرت علی نے دین کی تعلیم خو د نبی کر یم ﷺ سے حا صل کی آپ ﷺ نیک فطرت اور تقدیر الہی پر را ضی رہنے والے تھے  اللہ نے آپ کو خو ب عزت سے نو ازا آپ نے کبھی کسی بت یا مو رتی کو سجدہ نہیں کیااور نہ ہی کو ئی شیطا نی راہ اختیا ر کی آپ نے نہ کبھی کسی حجر کو چھو ا اور نہ کبھی کسی شجر کا طو اف کیا

آپ خو ب جا ذب نظر شخصیت کے ما لک تھے آپ نہ زیا دہ دراز قد تھے اور نہ ہی چھو ٹے قد کے آپ کی داڑھی گھنی تھی اور چہرہ حسین تھا آپ کا جسم فر بہی ما ئل تھا آنکھیں بڑی تھیں سر پر با ل کم تھے آپ بڑی منکر المزاج تھے آپ مہما ن کا بڑا اکر ام فر ما تے تھے آپ کے کلا م سے نو ر ظا ہر ہو تا ہے اور زبا ن سے حکمت اور دانا ئی کی با تیں نکلتی ہیں آپ اما م عا دل تھے کبھی غلط فیصلہ نہیں فر ما یا آپ کے پا س سے کبھی سائل خا لی ہا تھی نہیں لو ٹتا تھا مکہ میں مقیم ہو ئے تو اما نت دارو ں کو ان کی ما نتیں لو ٹا ئیں پھر رات کے وقت خفیہ طو ر پر ہجرت فر ما ئی

آپ ﷺ نے معر کہ خبیر میں حضرت علی کو علم دیا آپ نے جا بر و سر کش یہو دی کو جہنم واصل کیا آپ کے ہا تھ سے بہت سی اسلا می فتو حا ت ہو ئیں  آپ کو ہمیشہ دشمن پر غا لب آتے اور تا بڑ تو ڑ حملے کر تے دیکھا جا تا ہے دشمن آپ کے حملے سے فرار کی راہ ڈھو نڈتے تھے  آپ اتنے غیو ر تھے کہ جنگ میں حا صل ہو نے والے سا ما ن پر بلکل نظر نہیں رکھتے تھے لہذا آپ کسی مصبیت ذدہ یا زخمی انسا ن کو نقصا ن نہیں پہنچا تے تھے تما م غزوات میں بر سر پیکا ر اللہ کی راہ میں جہا  د کر تے رہے آپ نے تما م معا رک میں شجا عت کے جو ہر دیکھائے آپ فتنو ں کی آگ کو بجھا نے والے اور مصا ئب کا سا منا کر نے والے تھے

ایک مر تبہ ابو طا لب کی اپنے بیٹے حضرت علی پر نظر پڑی دیکھا کی وہ آپ ﷺ کے پیچھے نما ز پڑھ رہے ہیں یہ پہلا مو قع تھا کہ ابو طا لب نے اپنے بیٹے کو نما ز پڑھتے ہو ئے دیکھا  اور جا نا کہ یہ محمد کے پیر وکا ر میں شا مل ہو چکے ہیں ان کے دین و مذہب کو قبو ل کر لیا ہے اور قر یش کے معبو دوں سے بہت الگ ہو چکا ہے جب آپ نے نما ز مکمل کر لی تو اپنے والد کی جا نب متو جہ ہو ئے اور کہنے لگے کہ ابا جا ن میں اللہ اور اس کے رسول پر ایما ن لے آیا ہو ں اور میں نے آپ ﷺ کے دین کی تصد ئق اور اتبا ع کر لی ہے ابو طا لب نے کہا کہ یا د رکھو یہ شخص آپ کو خیر و بھلا ئی کی دعوت دیتا ہے پس اس سے وابستہ رہنا

غراہ احد میں لڑائی کے انگا رے بر س رہے تھے مشر کین بہا دروں کی تلو ارو ں کی زد میں آ کر ادھر ادھر بکھر رہے تھےمو ت سروں پر تھی اتنے میں حضرت علی مسلما نو ں کے علمبردار ہو ئے تو مشر کین کے سردار ابو سعد بن ابی طلحہ نے آپ کو دیکھا اپنے گھو ڑے ہو دوڑاتا ہو ا مید ا جنگ کے بیچ میں پہنچا جہا ں گر دنیں اڑ رہی تھیں اور کہنے لگا کہکو ئی مر د میدا ن ہے ؟کسی نے جو اب نہیں دیا پھر اس نے کہا کہ کیا تم نہیں کہتے کہ تمھا رے مقتول جنت میں اور ہما رے جہنم میں جا ئیں گے تو کیا تم میں سے کو ئی جنت میں نہیں جا نا چا ہتا حضر ت علی نے اس کی پکا ر سن کر کہا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جا ن ہے میں اس وقت تک تم سے جد انہیں ہو گا جب تک تم مجھے جنت میں نہ پہنچا دو یا میں تجھے اپنی تلو ار سے جہنم رسید نہ کر دو ں دنو ں کا مقا بلہ ہو ا دنو ں نے اپنے اپنے وار کئے حضرت علی نے صرب لگا ئی تو سعد کی ٹا نگ کٹ گئی اور وہ زمین پر گر پڑا ابو سعد برہنہ ہو گیا پھروہ ملتجی ہو گیا اور کہنے لگا میں تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں مجھے چھو ڑ دے تجھ سے رحم کی در خواست کر تا ہو ں حضرت علی نے اس کو چھو ڑ دیا حضور اکر م نے اللہ اکبر کہا حضر ت علی کے سا تھیو ں نے پو چھا بھلا آپ نے اسے کیو ں چھو ڑا س کا کا م تما م کر دیتے حضرت علی نے جواب دیا کہ میرے سا منی اس کا ستر کھل گیا تھا اور اس نے رحم کی دو خواست بھی کی تھی