You are currently viewing “تو بہ: اپنے اندر کی روشنی کو دوبارہ جگائیں”

“تو بہ: اپنے اندر کی روشنی کو دوبارہ جگائیں”

انسان میں شر کی دو طاقتیں ہیں ، ایک نفس انسانی ، یہ اندرونی اور دوسرا شیطان، جو کہ بیرونی طاقت ہے، یہ دونوں طاقتیں انسان کو گناہوں کی طرف لے جانے کی پیچھے کار فرما ہوتی ہیں ہر انسان سے کچھ نہ کچھ غلطیاں اور گناہ سرزد ہوجاتے ہیں ،کیوں کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ سوائےفرشتوں کے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں، ان سے کوئی گناہ نہیں ہوتا

جب انسان خطا کا پتلا ہے تو ان خطاؤں کے ازالے کے لیے قرآن پاک نے ہدایت اور رہنمائی کی ہے ، چنانچہ سورۂ آل عمران میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرے کچھ بندے ایسے ہیں جن کا حال یہ ہے کہ ’’اگر کبھی کوئی گناہ کاکام ان سے ہوجاتا ہے ،یا ان سے کوئی گناہ ہوجاتاہے(یعنی وہ اپنے اوپر ظلم کرلیتے ہیں) تو فوراً اللہ انہیں یاد آجاتا ہے اور وہ اللہ سے اپنے اس گناہ کی معافی مانگنے لگ جاتے ہیں، استغفار کرتے ہیں، کیوں کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو؟ اور یہ لوگ کبھی جان بوجھ کر اپنے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے ‘‘۔اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ کسی سے گناہ سرزد ہوجائے تو اسے چاہیے فوراً اللہ سے معافی طلب کرے ،ایسے لوگ اللہ کو انتہائی پسند ہیں ،یہ لوگ گناہ کے بعد فوراً توبہ اور استغفار کرنے لگتے ہیں ، اللہ کی طرف رخ کرتے ہیں ، گناہوں پر جمے نہیں رہتے ، ایسے لوگوں کو اللہ مغفرت اور جنت میں داخلہ عطا فرمائے گا۔

ابن کثیرؒ نے لکھا ہے کہ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری تو شیطان رونے لگا اور شیطان نے کہا: اے میرے رب، تیری عزت وجلال کی قسم! جب تک تیرے بندوں کی روحیں ان کے جسموں میں رہیں گی اور وہ زندہ رہیں گے، میں انہیں گمراہ کرتا رہوں گا، تو اللہ نے فرمایا: میری عزت وجلال کی قسم! جب تک میرے بندے مجھ سے استغفار کرتے رہیں گے ،میں مسلسل ان کو بخشتا رہوں گا۔

احادیث میں نبی کریم ﷺنے استغفار کی بہت فضیلت بیان فرمائی ہے ۔ایک حدیث میں رسول کریم کا فرمان ہے: جو شخص استغفار کی کثرت کرتا ہے، یعنی ہمیشہ استغفار کرتا رہتا ہے ، مسلسل استغفار کرتا ہے ، اللہ پاک ہر تنگی اور پریشانی سے اس کے لئے راہ نکال دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے آدمی کو غم سے نجات اور رہائی نصیب فرماتا ہے اور اس آدمی کو اللہ تعالیٰ ایسی جگہ سے رزق پہنچاتا ہے کہ اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ اسے معلوم بھی نہیں ہوتا اللہ اُسے کیس طرح سے نواز دیا ہے

اس حدیث سے ہمیں سابق ملتا ہےاٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے سوتے جاگتے،اپنے کاموں کو کرتے کرتے بھی توبہ و استغفار کرتے رہیں، استغفار کی برکت سے اللہ ہمیں پریشانیوں سے بچائےگا اور اگر کوئی آدمی کسی پریشانی میں مبتلا ہوگا، اللہ تعالیٰ اس کی پریشانی دور فرمادے گا۔ ہر غم سے اللہ پاک ہمیں نجات عطا فرمائے گا اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی جگہ سے روزی دے گا، جہاں ہمارا گمان بھی نہیں ہوگا، غیب کے خزانوں سے ہمیں اللہ تعالیٰ روزی عطا فرمائے گا۔ نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ تو تمام گناہوں سے پاک تھے، پھر بھی آپ ﷺکثرت کے ساتھ استغفار کرتے تھے، حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین مرتبہ استغفار کرتے اور اُسکے بعد یہ دعا پڑھتے: اللّٰھُمّ انت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذا الجلال و الاکرام۔ ” (صحیح مسلم)

اسکے علاوہ مسلم شریف میں حضرت عائشہ سے منقول روایت ہے کہ جب سورۂ نصر نازل ہوئی تو آپ ﷺبکثرت’’ سبحان اللہ و بحمدہ ااستغفراللہ و اتوبو علیہ‘‘پڑھتے تھے۔

ایک اور حدیث جو کہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :اللہ کی قسم ! میں دن میں ستر بار سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا اور توبہ کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری)

آپ ﷺ اتنی کثرت کےساتھ استغفار کرتے ، اس سے مقصود امت کو ہمیں استغفار وتوبہ کی ترغیب دلانا تھا کہ آنحضرت ﷺ باوجودیکہ معصوم اورتمام مخلوقات سے افضل ہیں، پھر بھی جب آپ ﷺ نے دن میں ستر بار توبہ و استغفار کی تو امت کے گناہ گاروں کو بطریق اولیٰ استغفار وتوبہ بہت کثرت سے کرنی چاہئے۔

استغفار اور توبہ کا طریقہ۔ استغفار کے لیے احادیث میں مختلف الفاظ آئے ہیں ، جس بندے کو جو یاد ہوں وہ کلمات استغفار کے پڑھتے رہنا چاہیے۔

ایک کلمہ استغفار کا “أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ الَّذِى لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَىُّ الْقَيُّومُ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ “ہے جسے یہ یاد ہو، یہ پڑھتارہے ۔

ایک کلمہ ” أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَ أَتُوبُ إِلَيْهِ ” ہے، یہ بھی پڑھ سکتے ہیں اور جسے یہ یاد نہ ہوں تو ’’أَسْتَغْفِرُ اللّٰه‘‘،’’أَسْتَغْفِرُ اللّٰه‘‘ہی پڑھتا رہے۔یہ مختصر کلمہ ہر مسلمان کو یاد ہوتا ہے، اسے پڑھتے رہنا چاہیئے ، اسے زبان پر ہر وقت جاری رکھیں اللہ تعالیٰ ہمیں استغفار کی تمام فضیلتیں عطا فرمائیں گے۔

توبہ و استغفار کرتے وقت صرف زبان پر ان کلمات کاہونا کافی نہیں ہے بلکہ توبہ کا مقصد تو جب پورا ہوگا جب انسان اپنے اللہ کے حضور اپنے قلب سے اپنی غلطی یا گناہ کا اعتراف کر اُس سے معافی طلب کرے اور دل سے اس بات کا پختہ ارادہ رکھے کہ وہ یہ غلطی یا گناہ آئندہ نہیں کرے گا نبی محترم کا فرمان ہے کہ ہر انسان خطا کار ہے ،یعنی ہر انسان گناہ کرتا ہے ،کوئی نہ کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے، اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔ یعنی جن لوگوں سے گناہ ہوگیا اور انہوں نے اپنے گناہ سے توبہ کرلی، یہ سب سے بہترین لوگ ہیں ۔ اگر انسان گناہ سے توبہ نہیں کرتا بلکہ بار بار گناہ کرتا رہتاہے تو اس کا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا :جب کوئی انسانٔ مومن یعنی مسلمان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے ،پھر اگر وہ اس گناہ سے توبہ کر لیتا اور استغفار کرتا ہے تو اس کا دل صاف کر دیا جاتا ہے یعنی وہ سیاہ نقطہ ہٹا دیا جاتا ہے، اگر وہ آدمی زیادہ گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہ نقطہ بڑھتا رہتا ہے ،یہاں تک کہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے اور پورا دل سیاہ ہوجاتاہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی اس سے حفاظت فرمائے۔ جو انسان گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے اور اپنی توبہ پر ڈٹ جاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ ایک حدیث میں آپ ﷺفرماتے ہیں : گناہوں سے صحیح اور پختہ توبہ کرنے والا شخص ایسا ہے کہ گویا اس سے گناہ سرزد ہی نہ ہوا ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توبہ و استغفار کثرت کے ساتھ کرنے کی توفیق دے ۔آمین

Leave a Reply