موت وآخرت کا تصور

ولبعث بعد الموت کا مطلب ہے کہ مرنے کے بعد سب کو قیامت کے دن دو بارا زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔ پس اول صور پھونکنے کے بعد جب چالیس برس کا عرصہ گزر جائے گا اور اتنی مدت تک احادیثِ صرفہ کا ظہور ہو چکے گا تو اللہ تعالیٰ اسرافیل علیہ الاسلام کو زندہ کرے گا پھر وہ صور پھونکیں گے جس کو نقحہ ثانی کہتے ہیں، جس سے اوّل عرش کو اٹھانے والے فرشتے پھر جبرائیل و میکائل اور عزرائیل علیہم الاسلام اٹھیں گے پھر نئی زمین و آسمان اور چاند وسورج موجود ہوں گے، پھر ایک مینہ برسے گا جس سے سبزہ کی طرح ہر روح والی چیز جسم کے ساتھ زندہ ہو جائے گی۔ اس دوبارہ پیدا کرنے اور حساب و کتاب کر کے جزا و سزا کے طور پر جنت و دوزخ میں بھیجنے کو شرع میں بعث و نشر اور حشر و نشر کہتے ہیں اور اس دن کو یوم الحشر، یوم الجزاء، یوم الدین اور یوم حساب کہتے ہیں۔ اس کا منکر کافر ہے سب سے پہلے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبر مبارک سے اس طرح باہر تشریف لائیں گے کہ آپ کے داہنی ہاتھ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ ہو گا اور بائیں ہاتھ میں حضرت فاروق اعظم کا ہاتھ ہو گا پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام پھر اور انبیاء علیم صلٰوۃ والسلام پھر صدیقین پھر شہدا پھر صالحین پھر اور مومنین یہ کہتے ہوئے اٹھیں گے اَلحَمدُ لِلّٰہِ الَّذِی اَذھَبَ عَنَّا الَحَزَنَ ط اِنَّ رَبَّنَا لَغَفّور شَکّور

پھر اور کفار اور اشرار یہ کہتے ہوئے اٹھیں گے :

یَا وَیلَنَا مَن بَعَثَنَا مِن مَّر قَدِنَا

نیکوں کا گروہ الگ ہو گا اور بروں کی جماعت الگ، ہر شخص برہنہ بے ختنہ اٹھے گا سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جنت کا سفید لباس پہنایا جائے گا ان کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بہترلباس پہنایا جائے گا، ان کے بعد اور رسولوں اور نبیوں کو پھر مؤذنوں کو لباس پہنایا جائے گا پھر کوئی پیدل کوئی سوار ہو کر میدان حشر میں جائیں گے، کافر منھ کے بل چلتا ہوا جائے گا، کسی کو ملائکہ گھسیٹتے ہوئے لے جائیں گے، کسی کو آگ جمع کرے گی اس روز آفتاب ایک میل کے فاصلہ پر ہو گا اس دن کی تپش ناقابل بیان ہے اللہ تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے، بھیجے ( مغز) کھولتے ہوں گے، اس کثرت سے پسینہ نکلے گا کہ ستر گز زمین میں جذب ہو جائے گا پھر جب زمین جذب نہ کر سکے گی تو اوپر چڑھے گا کسی کے ٹخنوں تک ہو گا کسی کے گھٹنوں تک، کسی کے گلے تک اور کافر کے تو منھ تک چڑھ کر لگام کی طرح جکڑ لے گا، جس میں وہ ڈبکیاں کھائے گا، پیاس کی شدت سے زبانیں سوکھ کر کانٹا ہو جائیں گی اور بعض کی منھ سے باہر نکل آئیں گی، دل ابل کر گلے میں آ جائیں گے، ہر شخص بقدر گناہ اس تکلیف میں مبتلا ہو گا پھر سب کو نامہ اعمال دئے جائیں گے۔ مومنون کو سامنے سے دائیں ہاتھ میں اور کافروں کو پیچھے سے بائیں ہاتھ میں ملیں گے۔

نیکیاں اور بدیاں میزان عدل میں تولی جائیں گی، جس کا نیکی کا پلہ بھاری ہو گا وہ جنت میں جائے گا جس کا وہ پلہ ہلکا ہو گا وہ دوزخ میں جائے گا جس کے دونوں پلے برابر ہوں گے وہ کچھ مدت اعراف میں رہے گا، پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں جائے گا۔ میزان میں اعمال تولنے کی کیفیت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ حقوق العباد کا بدلہ اس طرح دلایا جائے گا کہ ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دلائی جائیں گی اور جب نیکیاں ختم ہو جائیں گی تو مظلوم کی برائیاں ظالم پر ڈالی جائیں گی، چرندوں پرندوں اور وحشی جانوروں وغیرہ کا بھی حساب ہو گا اور سب کو بدلہ دلا کر سوائے جن و انس کے سب کو نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ میزان حق ہے اس کا منکر کافر ہے پل صراط حق ہے اور اس کا منکر بھی کافر ہے، میدان حشر کے گرداگرد دوزخ محیط ہو گی جنت میں جانے کے لئے اس دوزخ پر ایک پل ہو گا جو کہ بال سے زیادہ باریک، تلوار سے زیادہ تیز، رات سے زیادہ سیاہ ہو گا، یعنی اس پر اندھیرا ہو گا، سوائے ایمان کی روشنی کے اور کوئی روشنی نہ ہو گی، اس کی سات گھاٹیاں ہیں، سب لوگوں کو اس پر چلنے کا حکم ہو گا، سب سے پہلے نبیوں کے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سے گزریں گے آپ کے بعد آپ کی امت گزرے گی، پھر اور مخلوق باری باری گزرے گی، سوائے انبیاء علیہ السلام کے۔اور کوئی کلام نہ کرے گا اور انبیاء علیہم السلام کا کلام یہ ہو گا

اَللّٰھُمَّ سَلِّم سَلِّم

اے اللہ سلامت رکھنا سلامت رکھنا

جہنم میں پل صراط کے دونوں طرف کانٹوں کی طرح کے آنکڑے ہوں گے، جن کی لمبائی اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، وہ لوگوں کو ان کے عملوں کے مطابق اللہ تعالیٰ کے حکم سے پکڑیں گے، بعض کو پکڑ کر جہنم میں گرا دیں گے اور بعض کا گوشت چھیل ڈالیں گے لیکن زخمی کو اللہ تعالیٰ نجات دے گا، مومن سب گزر جائیں گے، بعض بجلی کی مانند بعض تیز ہوا کی مانند بعض پرندوں کی مانند، بعض تیز گھوڑے کی مانند، بعض تیز اونٹ کی مانند جلد گزر جائیں گے، بعض تیز دوڑنے والے آدمی کی مانند، بعض تیز چلنے والی پیدل کی مانند، بعض عورتوں کی طرح آہستہ، بعض سرین پر گھسیٹتے ہوئے اور بعض چیونٹی کی چال چلیں گے، کفار و منافق سب کٹ کر دوزخ میں گر جائیں گے، جس کو اس دنیا میں۔شریعت پر چلنا آسان ہو گا اتنا ہی پل صراط پر چلنا آسان ہو جائے گا اور جتنا یہاں۔شریعت پر چلنا مشکل ہو گا، اتنا ہی وہاں پل صراط پر چلنا اس کے لئے دشوار ہو گا حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت حق ہے، قیامت کے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سامنے گناہگار بندوں کی شفاعت فرمائیں گے۔

حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت حق ہے، قیامت کے روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سامنے گناہگار بندوں کی شفاعت فرمائیں گے۔ حضور کو یہ فضیلت عطا ہو چکی ہے پھر بھی اللہ تعالیٰ کے جلال و جبروت کے ادب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے شفاعت کی اجازت مانگیں گے۔ اور سجدے میں گر کر اللہ پاک کی بے شمار حمد وثنا کریں گے، پھر آپ کو شفاعت کی اجازت ہو گی، آپ بار بار شفاعت کرتے رہیں گے اور اللہ پاک بخشتا رہے گا، یہاں تک کہ جس نے سچے دل سے لا الہ الا اللہ کہا اور اس پر مرا ہو گا، اگرچہ اس نے کبیرہ گناہ بھی کئے ہوں لیکن شرک نہ کیا ہو وہ دوزخ سے نکالا جائے گا اور جنت میں داخل کیا جائے گا خواہ کسی نبی کا امتی ہو آنحضرت سب کی شفاعت کریں گے اور اللہ پاک قبول فرمائے گا سوائے کفر و شرک کے باقی تمام گناہوں کی معافی کے لئے شفاعت ہو سکتی ہے کبیرہ گناہوں والے شفاعت کے زیادہ محتاج ہوں محتاج ہوں گے کیونکہ صغیرہ گناہ تو دنیا میں بھی عبادتوں سے معاف ہو جاتے ہیں پھر آپ کے بعد اور انبیا کرام و اولیا و شہدا و علما و حفاظ و حجاج بلکہ ہر وہ شخص جسے کوئی دینی منصب ملا ہو اپنے اپنے متعلقین کی شفاعت کرے گا، لیکن بلا اجازت کوئی شخص شفاعت نہ کر سکے گا۔ نبی کریم بعض اموات کی قبر میں شفاعت فرمائیں گے بعض کی حشر میں دوزخ میں جانے سے پہلے شفاعت کریں گے اور بعض کو دوزخ میں جانے کے بعد شفاعت کر کے دوزخ سے نکالیں گے، بعض کی جنت میں ترقی درجات و بلندی مراتب کے لئے شفاعت فرمائیں گے۔ بعض کی شفاعت کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص وعدہ فرما لیا ہے مثلاً

1. جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مزار مبارک کی زیادت کرے،

2. جو حضور پر کثرت سے درود بھیجے،

3. جو ثواب جان کر مکہ یا مدینہ میں رہے تاکہ وہاں وفات پائے، ان کے لئے آپ نے شفاعت کا وعدہ فرمایا ہے،

کافروں یا مشرکوں کے لئے آپ کی یا کسی اور کی شفاعت بالاتفاق نہیں ہو گی، بعض گناہگار مسلمانوں کے لئے بھی آپ کی شفاعت نہ ہو گی، جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ قدریہ اور مرجۂ کو میری شفاعت نہ ہو گی، ظالم بادشاہ کی بھی میں شفاعت نہیں کروں گا اور شرع سے تجاوز کرنے والے کی بھی شفاعت نہیں کروں گا اگر اس کا ظاہر مطلب لیا جائے تو اہل کبائر سے یہ لوگ مستثنیٰ ہوں گے، یا یوں کہا جائے گا کہ ترقی درجات کی شفاعت ان کے لئے نہ ہو گی۔ بعض لوگوں سے خفیہ حساب لیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ ستاری فرما کر ان کو بخش دے گا اور کسی سے سختی کے ساتھ ایک ایک چیز کی باز پرس ہو گی، اللہ تعالیٰ اس قیامت کے دن کو جو ہمارے حساب سے پچاس ہزار برس کا دن ہے اپنے خاص بندوں پر اس قدر ہلکا کر دے گا کہ ان کو اتنا وقت معلوم ہو گا جتنا کہ ایک فرض نماز میں صرف ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی کم یہاں تک کہ بعض کو ایک پلک جھپکنے میں سارا دن طے ہو جائے گا۔

اللہ پاک حضور اقدس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود عطا فرمائے گا کہ تمام اولین و آخرین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حمد و ستائش کریں گے نیز آپ کو ایک جھنڈا مرحمت ہو گا جس کو لواء حمد کہتے ہیں۔ تمام مومنین حضرتِ آدم علیہ السلام سے لے کر آخر دنیا تک سب اس کے نیچے ہوں گے۔

Leave a Reply