You are currently viewing “رحمان بن عوف: مالی مدد اور اخلاقی مثال کی علامت۔”

“رحمان بن عوف: مالی مدد اور اخلاقی مثال کی علامت۔”

اُس معاشرے میں بالخصوص تین قسم کے افرادایسے تھے جن پرعبدالرحمن بن عوف ؓ بہت زیادہ دریادلی کے ساتھ اپنامال ودولت خرچ کیاکرتے تھے: پہلی قسم: تمام ’’بدری‘‘ حضرات،یعنی وہ جلیل القدر شخصیات جنہیں حق وباطل کے درمیان لڑی جانے والی اولین اوراہم ترین جنگ یعنی’’غزوۂ بدر‘‘میں شرکت کاشرف نصیب ہوا۔حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ ہمیشہ پابندی کے ساتھ ان کی خدمت میں قیمتی تحائف بھیجتے رہتے تھے۔ دوسری قسم: قبیلۂ قریش کے خاندان’’بنوزہرہ‘‘سے تعلق رکھنے والے افراد(کیونکہ خود عبدالرحمن بن عوف ؓ کاتعلق بھی اسی خاندان ’’بنوزہرہ‘‘سے تھا)۔ تیسری قسم : اُمہات المؤمنین ٗ یعنی رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مطہرات۔رسول اللہ ﷺ کی اس جہانِ فانی سے رحلت کے بعدحضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ تمام امہات المؤمنین کی ضروریاتِ زندگی کابہت زیادہ خیال رکھاکرتے تھے،ہمیشہ ان سبھی کی خدمت میں اشیائے خوردونوش ودیگراشیائے ضرورت ٗنیزقیمتی ہدایاوتحائف ارسال کرتے رہناان کاروزمرہ کامعمول تھا، بالخصوص ہرسال حجِ بیت اللہ کے موقع پر یہ ان کے ہمراہ جاتے ، دورانِ سفر ہر طرح سے ان کی ضروریات کاخیال رکھتے،خوب خدمت بجالاتے،اُن کیلئے عمدہ ترین سواریوں کاانتظام ،نیز ہر طرح ان کی راحت وآرام اورقیام وطعام کابندوبست خوداپنی ذاتی نگرانی میں کیاکرتے۔

ظاہرہے کہ امہات المؤمنین کی خدمت اوران کی خبرگیری بذاتِ خودبہت بڑی سعادت تھی مزیدیہ کہ اس سے حضرت عبدالرحمن بن عوف کی ایک اوربڑی سعادت مندی یہ بھی ظاہرہوتی ہے کہ امہات المؤمنین کوان پرکس قدراعتمادتھااورمکمل بھروسہ تھا۔  یوں ہجرتِ مدینہ کے فوری بعدایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ان کیلئے جو دعائے خیر و برکت فرمائی تھی ٗ اس کے نتیجے میں ان کی خوشحالی وفراوانی میں حیرت انگیز طور پر مسلسل اضافه ہوتا ہی چلاگیا اوریہ اللہ کے دئیے ہوئے اس مال میں سے ہمیشہ دینِ اسلام کی سربلندی ٗاورمسلمانوں کی خیروخوبی کیلئے مسلسل انتہائی سخاوت وفیاضی کے ساتھ خرچ کرتے رہے۔ مگریہ تمام مال ودولت اورروپیہ پیسہ انہیں اللہ کی یادسے ٗ یادینی فرائض کی ادائیگی سے کبھی غافل نہ کرسکا، نہ ہی ان کے مزاج میں کسی قسم کی خرابی ٗبگاڑ ٗ یا تکبر و غرور کا سبب بن سکا۔

اپنی زندگی کے آخری ایام میں انہیں اکثریہ فکرلاحق رہتی کہ اللہ نے جومجھے اس قدرمال ودولت اورخوشحالی وفراوانی سے نوازرکھاہے،کہیں ایسی بات تونہیں کہ اللہ نے مجھے سب کچھ بس اسی عارضی وفانی دنیامیں ہی دے دیاہو،اوروہاں آخرت کی ابدی ودائمی زندگی میں میرے لئے فقط محرومی ہو یہ بات سوچ کربہت زیادہ پریشان ہوجاتے،اکثررقت طاری ہوجاتی اورتب اللہ کی راہ میں مزیدصدقہ وخیرات کرتے یوں ’’انفاق فی سبیل اللہ ‘‘کایہ سلسلہ آخری ایام میں بہت زیادہ بڑھ گیاتھا۔ چنانچہ انہی دنوں (سن ۳۲ہجری میں )یہ واقعہ بھی پیش آیاکہ جب کُل تین سو تیرہ’’بدری ‘‘ حضرات میں سے ایک سو بقیدِحیات تھے تب حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے ان(ایک سوبدری حضرات) میں سے ہرایک کی خدمت میں نقد  چار سو دینار بطورِ ہدیہ ارسال کئے  جوکہ یقینابہت خطیررقم تھی انہی دنوں ایک بارملکِ شام سے ان کاتجارتی قافلہ مدینہ پہنچا،یہ قافلہ سامانِ تجارت سے لدے ہوئے سات سواونٹوں پرمشتمل تھا بڑی تعدادمیں خُدام وملازمین بھی ہمراہ تھے مال واسباب سے لدے ہوئے یہ سات سواونٹ اوران کے چلانے اورہنکانے والے  ودیگرملازمین جب مدینہ پہنچے  اور وہاں مختلف گلیوں اورمحلوں سے گذرتے ہوئے جب یہ سب آگے بڑھ رہے تھے توان کی نقل وحرکت اورشوروغل کی وجہ سے عجب سماں بندھ گیا ہرکوئی گھرسے نکل کرحیرت سے اس قافلے کوتکنے لگا  ایسے میں کسی نے اس قافلے کی جانب دیکھتے ہوئے عبدالرحمن بن عوف ؓ کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جس سے یہ مفہوم سمجھ میں آتاتھاکہ ’’عبدالرحمن بن عوف توبس اب دنیاداری میں ہی کھوکررہ گئے ہیں  ‘‘جلدہی یہ بات کسی طرح عبدالرحمن بن عوف ؓ تک پہنچ گئی ابھی وہ قافلہ مدینہ شہرمیں اپنی آخری منزل تک پہنچابھی نہیں تھا مال واسباب ان اونٹوں سے اتارنے کی ابھی نوبت بھی نہیں آئی تھی کہ کسی تاخیرکے بغیرفوراًہی حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اپنی جگہ سے اٹھے ،اورنہایت سرعت وبے چینی کی کیفیت میں اس قافلے کے پاس پہنچے،اوروہاں موجودتمام افراد کو مخاطب کرتے ہوئے بآوازِبلندیہ الفاظ کہے: ’’لوگو!تم سب گواہ رہناکہ میں اپنے یہ تمام(سات سو) اونٹ بمع سامان ٗ اللہ کی راہ میں صدقہ کرتاہوں 

zakat-chalo-masjid-com

‘‘شب وروزاورماہ وسال کایہ سفرجاری رہا  سن ۳۲ہجری میں ایک دن جب حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے روزہ رکھاہواتھا افطارکاوقت جب قریب آیا، خادم نے افطارکاسامان اورکھاناوغیرہ پیش کیا اس کھانے پرجب نظرپڑی توانتہائی اداس ہوگئے،مزاج پررقت طاری ہوگئی، دسترخوان پرکچھ مہمان بھی موجود تھے، انہوں نے جب ان کی یہ اچانک افسردگی وپریشانی دیکھی تواس چیزکی وجہ دریافت کی تب عبدالرحمن بن عوف ؓ کی آنکھوں سے آنسوچھلکنے لگے اور گلوگیرآوازمیں یوں گویاہوئے:’’مصعب بن عمیرتومجھ سے بہت اچھے تھے اللہ کے ہاں ان کامقام ومرتبہ مجھ سے زیادہ تھا لیکن اس کے باوجودکیفیت یہ ہوئی کہ آج سے تقریباً تیس سال قبل ’’اُحد‘‘کے میدان میں رسول اللہ ﷺ کی معیت میں جب ہم انہیں کفن پہنارہے تھے، تب کیفیت یہ تھی کہ ہم ان کاسر ڈھانپتے توپاؤں ظاہر ہوجاتے پاؤں ڈھانپنے کی کوشش کرتے توسر اور چہرہ ظاہر ہو جاتا آخراس ناکام کوشش کے بعد بس اسی طرح ، اس ادھورے اورپھٹے پرانے سے کفن میں ہی ہم نے انہیں سپردِخاک کردیا حالانکہ وہ تومجھ سے بہت اچھے تھے مگرپھر بھی اس حالت میں وہ دنیاسے رخصت ہوئے۔ اتنا کہنے کے بعدعبدالرحمن بن عوف ؓ خوب پھوٹ پھوٹ کررونے لگے  اور پھر تھوڑی دیربعدجب طبیعت کچھ سنبھلی تو یوں بولے’’مصعب بن عمیر کا تو یہ حال جبکہ میرے پاس یہ اس قدرمال ودولت کی فراوانی کہیں ایسانہ ہوکہ اللہ نے مجھے سب کچھ بس یہیں اس فانی وعارضی دنیامیں ہی دے دیاہو اوروہاں آخرت میں میرے لئے اب کچھ نہ ہو نہ جانے وہاں اللہ کے پاس میرااب کیابنے گا ؟‘‘ یہ سوچ تھی حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کی  اوریہ جذبہ تھا جس کی وجہ سے مال ودولت کی فراوانی وخوشحالی اورہرقسم کے دنیاوی مال واسباب کی بہتات کے باوجودان کے مزاج میں کسی خرابی کی بجائے اوران کے اخلاق وکردارمیں کسی فسادکی بجائے اپنے اللہ کے ساتھ تعلق مزیدمضبوط ومستحکم کرنے کی لگن اللہ کے سامنے جوابدہی کاہمہ وقت احساس نیزاللہ کے بندوں کے ساتھ حسنِ سلوک اوران کی مدد واعانت کاجذبہ ہرگذرتے ہوئے لمحے کے ساتھ مضبوط سے مضبوط ترہوتاہی چلاگیا۔

اسی کیفیت میں آتے جاتے موسموں کایہ سفرجاری رہا آخر سن۳۲ہجری میں ۷۵سال کی عمرمیں مدینہ منورہ میں ان کاانتقال ہوگیا خلیفۂ وقت امیرالمؤمنین حضرت عثمان بن عفان ؓ ٗ حضرت علی بن ابی طالب ؓ ٗ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ ٗ ودیگرمتعددکبارِصحابہ  نے مل کرتجہیزوتکفین کے فرائض انجام دئیے، نمازِجنازہ ان کی وصیت کے مطابق خلیفۂ وقت حضرت عثمان بن عفان ؓ نے پڑھائی اورپھرمدینہ منورہ کے قبرستان’’بقیع‘‘میں انہیں سپردِخاک کردیاگیا یوں رسول اللہ ﷺ کے یہ انتہائی عظیم المرتبت اورجلیل القدرصحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اپنے اللہ سے جاملے اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں عبدالرحمن بن عوف ؓ کے درجات بلندفرمائیں ۔