You are currently viewing “عبد الرحمن بن عوف: ایک عظیم صحابی اور مثالی انسان”

“عبد الرحمن بن عوف: ایک عظیم صحابی اور مثالی انسان”

رسول اللہ ﷺ کے جلیل القدرصحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کاتعلق شہرمکہ میں قبیلۂ قریش کے مشہورخاندان ’’بنوزہرہ‘‘سے تھا مکہ شہرمیں ان کی ولادت رسول اللہ ﷺ کی ولادت باسعادت کے تقریباً دس سال بعدہوئی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ ’’السابقین الأولین‘‘ یعنی بھلائی میں سبھی لوگوں پرسبقت لے جانے والوں میں سے تھے،یعنی وہ عظیم ترین افرادجنہوں نے بالکل ابتدائی دورمیں دینِ اسلام قبول کیا کہ جب مسلمانوں کیلئے بہت ہی مظلومیت اوربے بسی وبے چارگی کازمانہ چل رہاتھا یہی وجہ ہے کہ ان حضرات کابڑامقام ومرتبہ ہے ،ان کیلئے عظیم خوشخبریاں ہیں ٗ اورانہیں قرآن کریم میں ’’السابقین الأولین‘‘کے نام سے یاد کیا گیاہے۔ مزیدیہ کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ ’ ’’عشرہ مبشرہ‘‘یعنی ان دس خوش نصیب ترین افرادمیں سے تھے جنہیں اس دنیاکی زندگی میں ہی رسول اللہ ﷺ نے جنت کی خوشخبری سے شادکام فرمایاتھا۔

مکہ شہرمیں دینِ اسلام کاسورج طلوع ہونے سے قبل ہی حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کی حضرت ابوبکرصدیق ؓ کے ساتھ خاص دوستی اورقربت تھی ،دونوں میں بہت گہرے روابط تھے،چنانچہ ظہورِاسلام کے بعدحضرت ابوبکرصدیق ؓ کی دعوت کے نتیجے میں ہی حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ مشرف باسلام ہوئے۔  قبولِ اسلام کے بعدتکالیف ٗ مصائب وآلام ٗاورآزمائشوں کادورشروع ہوا دینِ اسلام کے اسی ابتدائی دورمیں جب مشرکینِ مکہ کی طرف سے ایذاء رسانیوں کاسلسلہ عروج پرتھا تب نبوت کے پانچویں سال رسول اللہ ﷺ کے مشورے پر بہت سے مسلمان مکہ سے ملکِ حبشہ کی جانب ہجرت کرگئے تھے،انہی مہاجرینِ حبشہ میں حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ بھی شامل تھے۔

پھرہجرتِ مدینہ کے موقع پردیگرتمام مسلمانوں کی طرح حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ بھی مدینہ منورہ آپہنچے،جہاں رسول اللہ ﷺ نے مہاجرین وانصارکے مابین مؤاخات کے موقع پرانہیں اورسعدبن الربیع الانصاری ؓ کو’’رشتۂ اُخوت ‘‘میں منسلک فرمادیا۔  اس رشتۂ اخوت میں بندھ جانے کے بعدحضرت سعدبن الربیع ؓ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کومخاطب کرتے ہوئے یوں کہا:’’دیکھئے عبدالرحمن ، میرے پاس خوب مال ودولت ہے، وہ ہم آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں ، نیزمیرے پاس کھجوروں کے دوباغ بھی ہیں ،ان میں سے جوآپ کوپسندآئے وہ آپ لے لیجئے‘‘۔  حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے اپنے انصاری بھائی کی اس مخلصانہ پیشکش پران کاخوب شکریہ اداکیا اورپھرانہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’ بَارَکَ اللّہُ لَکَ فِي مَالِک  ولٰکِن دُلَّنِي عَلَیٰ السُوق یعنی’’اللہ آپ کے مال میں مزیدخیروبرکت عطاء فرمائے آپ بس مجھے ذرہ بازارکاراستہ دکھادیجئے ‘‘یوں حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ  نیز دیگر تمام مہاجرین نے اپنے انصاری بھائیوں کی اس مہمان نوازی ٗ حسنِ اخلاق ٗ شرافت ٗ فراخدلی اوربے مثال ایثارسے ناجائزفائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان پربوجھ بننے کی بجائے محنت ومشقت کا راستہ اختیارکیا اورجلدازجلدخوداپنے پیروں پرکھڑے ہونے کی جدوجہدمیں مشغول ہوگئے۔

چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے بھی مدینہ میں ’’تجارت‘‘کواپناذریعۂ معاش بنایا شب وروزکی محنت وکوشش کے نتیجے میں ان کے مالی حالات کافی بہترہوتے چلے گئے۔  خوشحالی وفراوانی جب نصیب ہوئی توانہوں نے ایک انصاری خاتون کے ساتھ شادی بھی کرلی تب ایک روز یہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے توکیفیت یہ تھی کہ ان کے لباس پر خوشبو کے کچھ اثرات تھے رسول اللہ ﷺ نے یہ خوشگوار تبدیلی دیکھی توتعجب کی کیفیت میں  اورنہایت شفقت بھرے انداز میں  انہیں مخاطب کرتے ہوئے دریافت فرمایا: ’’اے عبدالرحمن،کیاتم نے شادی کرلی ہے ؟‘‘اس پر عبدالرحمن ؓ نے عرض کیا’’جی ہاں  اے اللہ کے رسول ‘‘ تب آپؐ نے دریافت فرمایا’’اپنی دلہن کوتم نے مہرمیں کیا چیز دی ہے؟‘ ‘ عرض کیا : ’’کھجورکی گٹھلی کے وزن کے برابرسونا‘‘ تب آپؐ نے تاکیدی اندازمیں فرمایا:’’ولیمہ ضرورکرنا اگرچہ محض ایک بکری ہی کیوں نہو‘‘اور پھر اسی موقع پرآپؐ نے انہیں دعائے خیر دیتے ہوئے یہ ارشادبھی فرمایا: بَارَکَ اللّہُ لَکَ ۔ یعنی’’اللہ تمہیں خیروبرکت عطاء فرمائے‘‘  اس موقع پررسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابی عبدالرحمن بن عوف ؓ کواس دعائے خیروبرکت سے جونوازا اور پھراس مبارک دعاء کا جو اثر ظاہر ہوا اس بارے میں حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ فرماتے ہیں :  ’’ اس دعائے خیر کے بعددنیاوی نعمتیں خود بخود میرے پاس آتی ہی چلی گئیں ،یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ اگر میں کوئی پتھر بھی اٹھاؤں گا تواس کے نیچے سے میرے لئے سونا یا چاندی برآمد ہوگا‘‘۔

 ہجرتِ مدینہ کے بعدجلد ہی جب غزوات کی نوبت آئی توحق وباطل کے درمیاں پہلی یادگارجنگ یعنی ’’غزوۂ بدر‘‘کے موقع پر، اورپھردوسری جنگ ’’اُحد‘‘کے موقع پر حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ رسول اللہ ﷺ کی زیرِقیادت شریک ٗبلکہ پیش پیش رہے، اورشجاعت وبہادری کے خوب جوہردکھاتے رہے،بالخصوص ’’غزوۂ اُحد‘‘کے موقع پرجب مسلمان اپنی ہی ایک غلطی کی وجہ سے جیتی ہوئی جنگ ہارگئے،ہرطرف افراتفری پھیل گئی، تب اس نازک ترین صورتِ حال میں مٹھی بھرچندافرادجورسول اللہ ﷺ کے ہمراہ موجود تھے ،انہی میں حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ بھی شامل تھے، اس موقع پرانہوں نے بڑی تکلیفیں اٹھائیں ،بہت چوٹیں کھائیں ،تلواروں اورتیروں کے بہت سے زخم لگے،لیکن ان کی بہادری اورثابت قدمی میں کوئی فرق نہ آیا، پائے استقامت میں ذرہ برابرلغزش نہیں آئی اورپھرجنگ کے اختتام پرجب میدانِ جنگ سے نکلے تو کیفیت یہ تھی کہ جسم کے مختلف مقامات پربیس سے زیادہ کاری زخم لگے ہوئے تھے۔

غدوہ’’بدر‘‘اورپھر’’اُحد‘‘کے بعدبھی رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے دوران جتنے بھی غزوات پیش آئے ٗ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ ہمیشہ ہرغزوے کے موقع پررسول اللہ ﷺ کی زیرِقیادت شریک رہے ،بلکہ پیش پیش رہے ،اورشجاعت وجرأت کے خوب جوہر دکھاتے رہے۔  سن چھ ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے ’’دُومۃ الجندل‘‘ کی جانب لشکرکی روانگی کے وقت حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کواس لشکرکا سپہ سالارمقررفرمایا،اس موقع پرآپؐ نے نہایت شفقت ومحبت کے ساتھ خوداپنے دستِ مبارک سے ان کے سرپرعمامہ باندھا، اورپھردعائے خیروبرکت کے ساتھ انہیں روانہ فرمایا۔  یوں دینِ اسلام کی سربلندی کی خاطرحضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ روزِاول سے ہی قدم قدم پرمصائب وآلام کاخندہ پیشانی کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے ہجرتِ حبشہ ہو یاہجرتِ مدینہ مشرکین ومخالفین کے خلاف غزوات ہوں  یاکوئی بھی موقع ہو ہرموقع پر اورہرآزمائش میں حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ ہمیشہ بے مثال استقامت اورجرأت وشجاعت کامظاہرہ کرتے رہے،آزمائش کی ہرگھڑی میں بڑی سے بڑی سے قربانی پیش کرنے کیلئے ہمہ وقت آمادہ وتیاررہے۔