You are currently viewing حضرت طفیل بن عمرو الدوسی : ایمان کی روشنی پھیلانے والے

حضرت طفیل بن عمرو الدوسی : ایمان کی روشنی پھیلانے والے

اس ملاقات کے موقع پررسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا : ’’اے طفیل!وہاں آپ کے علاقے میں کیاصورتِ حال ہے؟‘‘(یعنی دینِ اسلام کی نشرواشاعت کے سلسلے میں ؟)طفیل ؓ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول!وہاں تودلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں ،شدیدقسم کا کفر چھایا ہواہے،قبیلۂ دَوس والوں پرتوبس فسق وفجور اور نافرنانیوں کا غلبہ ہے ‘‘۔حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ہمارے سردارطفیل کی زبانی یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ اپنی جگہ سے اٹھے،وضوء کیا،دورکعت نمازاداکی،اوراس کے بعد دعاء کیلئے اپنے دونوں ہاتھ بلندکردئیے میں نے جب یہ منظردیکھاتومیں بہت زیادہ خوفزدہ ہوا اور انتہائی پریشان ہوگیا،اورمیری زبان سے بے اختیاریہ الفاظ نکلے : ہائے میری قوم) لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پریوں دعاء شروع کی : ’’اے اللہ توقبیلۂ دوس والوں کوہدایت نصیب فرما،اورانہیں میرے پاس لے آ‘

قصدیہ کہ رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت طفیلؓ کی زبانی ان کے قبیلے والوں کے بارے میں یہ بات سنی کہ وہاں توبس کفرہی کفرہے اس کے فوری بعد آپؐ نے اٹھ کروضوء کیا، دورکعت نمازپڑھی اورپھردعاء کیلئے اپنے ہاتھ اٹھادئیے تو یہ منظردیکھ کرحضرت ابوہریرہ ؓ یہ سمجھے کہ اب آپؐ دَوس والوں کیلئے بددعاء کریں گے،اورظاہرہے کہ نبی کی بددعاء تو رائیگاں نہیں جائے گی ،وہ توضروراثردکھائے گی جس کے نتیجے میں اب قومِ دَوس برباد ہوکر رہ جائے گی،وہ سبھی مارے جائیں گے،اوروہ سب اگرچہ کافرومشرک ہی سہی ،لیکن بہرحال وہ ابوہریرہؓ ہی کی قوم کے لوگ تھے،ان کے ساتھ خاندانی تعلقات تھے،قربتیں تھیں ، رشتے داریوں کے سلسلے تھے لہٰذارسول اللہ ﷺ نے جب دعاء کیلئے ہاتھ بلند کئے تویہی سب کچھ سوچ کر ابوہریرہ ؓنہایت پریشان ہوگئے اورزبان سے بے اختیاریہ الفاظ نکلے’’ہائے میری قوم‘‘۔لیکن ’’رحمۃ للعالمین‘‘ ﷺ نے اس موقع پرجب دعاء شروع کی تواس میں کسی کیلئے تباہی کا کوئی تذکرہ نہیں تھا اس میں توبس قومِ دَوس کیلئے ہدایت کی دعاء مانگی گئی تھی،اوریہ کہ وہ سبھی لوگ ہدایت پانے کے بعدوہاں سے چلے آئیں اوررسول اللہ ﷺ کے ہمراہ دیگرتمام ٰمسلمانوں میں شامل ہوجائیں ۔

اس دعاء سے فراغت کے بعدرسول اللہ ﷺ حضرت طفیل ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اورانہیں مخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا’’اے طفیل! آپ اپنی قوم کی طرف واپس جائیے،ان کے ساتھ نرمی سے پیش آیئے،اورانہیں دینِ اسلام کی طرف دعوت دیجئے‘‘(غالباً آپؐ کواس بات کاندازہ ہو چکاتھاکہ طفیلؓ کے مزاج میں اپنی قوم کی سرداری کی وجہ سے کچھ سختی ہے،اس لئے آپؐ نے انہیں اپنی قوم کے ساتھ نرمی برتنے اورپیار ومحبت کے ساتھ دینِ اسلام کی طرف دعوت کی تاکید فرمائی)۔ چنانچہ یہ دونوں حضرات مکہ سے واپس اپنے علاقے کی طرف لوٹے ،اوروہاں پہنچنے کے بعدحضرت طفیل بن عمروالدَوسی ؓ اپنی قوم میں مسلسل دعوت وتبلیغ کافریضہ سرانجام دیتے رہے،اوریوں کئی سال بیت گئے،

رسول اللہ ﷺ ودیگرمسلمان نبوت کے چودہویں سال کے اوائل میں مکہ سے مدینہ ہجرت کرگئے،اورپھر ۲ھ؁میں غزوہ ٔبدر پھر ۳ھ؁میں غزوۂ اُحد اورپھر ۵ھ؁ میں غزوۂ خندق کے اہم ترین واقعات بھی گذرگئے،حتیٰ کہ رفتہ رفتہ ۷ھ؁میں جاکرجب ان کے قبیلۂ دَوس کے لوگ کافی تعداد میں دینِ اسلام قبول کر چکے، تب حضرت طفیل ؓ اَسّی گھرانوں پرمشتمل اپنی قوم کے افرادکی قیادت کرتے ہوئے تہامہ سے مدینہ آپہنچے انہی دنوں رسول اللہ ﷺ فتحِ خیبرکے بعدمدینہ واپس تشریف لائے تھے، آپؐ حضرت طفیلؓ اوران کے ساتھیوں کی مدینہ آمدپربہت زیادہ مسرورہوئے، نیز چونکہ یہ سب لوگ محض اپنے دین وایمان کی حفاظت کی خاطر اپنے گھر بار اوراپنا آبائی علاقہ چھوڑ کرمدینہ چلے آئے تھے،لہٰذاان کی مددکے طورپر نیزان کی دلجوئی کی خاطر آپؐ نے خیبر سے حاصل شدہ مالِ غنیمت میں سے انہیں بہت کچھ عطاء فرمایا،تاکہ اب یہ لوگ ازسرِنو یہاں مدینہ میں اپنے گھربساسکیں ۔اس کے بعدحضرت طفیل بن عمروالدَوسی ؓ مسلسل رسول اللہ ﷺ کی صحبت ومعیت میں رہے

اوراگلے ہی سال یعنی ۸ھ؁میں ماہِ رمضان میں فتحِ مکہ کایادگار اورتاریخی واقعہ جب پیش آیا تواس موقع پریہ بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ فتحِ مکہ کے فوری بعدجب یہ تمام حضرات ابھی مکہ میں ہی مقیم تھی حضرت طفیلؓ نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیاکہ’’اے اللہ کے رسول! ہمارے علاقے[یعنی ’’تہامہ‘‘جہاں اصل میں طفیلؓ اوران کاقبیلۂ دَوس آباد تھا میں ایک بہت بڑابت ہے،اے اللہ کے رسول! میرا جی چاہتا ہے کہ میں ایک بارپھروہاں جاؤں اوراسے جلادوں آپؐ نے اجازت مرحمت فرمائی،جس پر حضر ت طفیلؓ مکہ سے اپنے اصل علاقے ’’تہامہ‘‘کی جانب مسلسل سفر کرتے ہوئے جب وہاں پہنچے توان کے قبیلے کے باقی ماندہ افراد جو اب تک اپنے پرانے دین (یعنی کفر وشرک) پرہی قائم تھے ان کے سامنے حضرت طفیلؓ اس بڑے بت کوجلانے کی تیاریاں کرنے لگے تب وہاں لوگوں کاایک جمعِ غفیر اکٹھا ہوگیا،مرد عورتیں بچے چھوٹے بڑے سبھی نہایت بے چینی کے ساتھ انتظارکرنے لگے،اور آپس میں یوں چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ بس ابھی ہمارے اس بڑے بت کاغضب طفیل پرنازل ہونے ہی والاہے بس اب تھوڑی ہی دیرمیں یہ شخص ہماری آنکھوں کے سامنے جل کرراکھ ہو جائے گا بربادہوجائے گا اورپھرحضرت طفیل ؓ نے ان سب کی نگاہو ں کے سامنے کہ جوسالہاسال سے نسل درنسل اس بڑے بت کی پوجاکرتے چلے آرہے تھے،اوراسے اپنی قسمت کااوراپنے نفع و نقصان کا مالک سمجھتے ہوئے ہمہ وقت اس کے سامنے سجدہ ریز رہاکرتے تھے ان سب کی نگاہوں کے سامنے اس بڑے بت کوجلاکرریزہ ریزہ کرڈالا اورتب وہ بس دیکھتے ہی رہ گئے،اپنی کھلی آنکھوں سے جب انہوں نے اپنے اس سب سے بڑے بت کی یہ بے بسی دیکھی کہ ’’یہ توخوداپنی حفاظت بھی نہیں کرسکا‘‘تب وہ سب فوج درفوج مسلمان ہوگئے

اوریوں حضرت طفیل بن عمروالدَوسی ؓ کے ہاتھوں جب وہ بڑابت جلا تواس کے ساتھ ہی اس علاقے میں کفر وشرک کے باقی ماندہ اثرات بھی ہمیشہ کیلئے جل کرنیست ونابود ہو گئے اور ان کا نام ونشان مٹ گیا۔اس کے بعدحضرت طفیل ؓ واپس مدینہ لوٹ آئے،زندگی کاسفر پھر رواں دواں ہوگیا،نہایت ذوق وشوق اوراہتمام والتزام کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی صحبت ومعیت سے مستفید و مستفیض ہوتے رہے،حتیٰ کہ آپؐ کامبارک دورگذرگیا۔ آپؐ ہمیشہ تادمِ آخران سے بہت ہی مسرور اور انتہائی مطمئن رہے۔

Leave a Reply