You are currently viewing “حضرت طفیل بن عمرو الدوسی:دعوتِ اسلام کے عظیم مبلغ”

“حضرت طفیل بن عمرو الدوسی:دعوتِ اسلام کے عظیم مبلغ”

قبولِ اسلا م کے بعدحضرت طفیل بن عمروالدَوسی ؓ کچھ عرصہ مکہ میں ہی مقیم رہے، اس دوران رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوکراللہ کادین سیکھتے رہے،نیزکچھ قر آن کریم بھی حفظ کیا۔ اورجب مکہ سے واپس اپنے علاقے ’’تہامہ‘‘کی جانب روانہ ہونے لگے توعرض کیاکہ ’’اے اللہ کے رسول!میں اپنے قبیلے کاسردارہوں ،وہاں میری اطاعت کی جاتی ہے،اس لئے میں وہاں پہنچنے کے بعداُن لوگوں کودینِ اسلام کی طرف دعوت دوں گا،لہٰذا آپ سے میری گذارش ہے کہ  آپ اللہ سے میرے لئے دعاء فرمائیے کہ اللہ مجھے کوئی ’’نشانی‘‘عطاء فرمائے،تاکہ جب میں اپنی قوم کودینِ اسلام کی طرف دعوت دوں ، تواُس موقع پرمیں انہیں اس دین کی حقانیت وصداقت کی کوئی نشانی بھی دکھاسکوں ‘‘تب رسول اللہ ﷺ نے دعاء فرمائی : اَللّھُمّ اجْعَل لَہ   آیَۃ یعنی’’اے اللہ تواسے کوئی نشانی عطاء فرما‘‘۔

اور پھر رسول اللہ ﷺ سے الوداعی ملاقات کے بعد حضرت طفیل بن عمروالدَوسی ؓ مکہ سے اپنے علاقے کی جانب روانہ ہوگئے،مسلسل سفرکرتے ہوئے جب وہاں پہنچے تو ابھی اپنی بستی سے کچھ فاصلے پرہی تھے کہ اچانک ان کی دونوں  آنکھوں کے درمیان کی جگہ سے یوں روشنی پھوٹنے لگی جیسے کوئی چراغ جل رہاہو تب یہ پریشان ہوگئے،اورسوچنے لگے کہ میری قوم جب یہ منظردیکھے گی تواس چیزکودینِ اسلام کی حقانیت کی نشانی سمجھنے اورمتأثرہونے کی بجائے وہ لوگ یوں کہیں گے کہ ’’اس نے چونکہ اپنا دین بدل لیا،اپنے دین سے غداری کی   لہٰذااس کی سزاکے طورپراس کی توشکل ہی بدل گئی ‘‘اورتب انہوں نے اللہ سے دعاء کی کہ یااللہ تواس نشانی کومیرے چہرے کی بجائے کہیں اورمنتقل فرمادے‘‘ تب وہ روشنی وہاں سے ہٹ گئی ،اورانہوں نے اپنے ہاتھ میں جوکوڑا تھام رکھاتھا   اس کے سِرے پر آکرخوب چمکنے لگی چونکہ وہ پہاڑی علاقہ تھا،ان پہاڑیوں کے درمیان وہ بستی کچھ نشیب میں تھی ،یعنی باہر سے بستی کی طرف  آنے والاراستہ بلندی سے ڈھلان کی طرف  آتاتھا،چنانچہ طفیل بن عمروالدَوسی ؓ اپنی بستی کی طرف  آتے ہوئے جب اسی بلندی سے ڈھلان کی طرف اتررہے تھے توان کے قبیلے والوں نے عجیب وغریب منظر دیکھا، کہ ان کے سردارنے ہاتھ میں کوڑاتھام رکھاہے ،اوراس کے سرے پرگویاایک چمکتی ہوئی قندیل لٹکی ہوئی ہے یہ بڑاہی عجیب وغریب منظرتھا گویااوپر پہاڑ کی بلندیوں سے ایک روشنی ان کی جانب چلی  آرہی ہے جسے دیکھ کروہ لوگ حیران وپریشان اور انگشت بدندان رہ گئے

حضرت طفیل بن عمروالدَوسی ؓ چونکہ اپنے اس قدرطاقتوراورشان وشوکت والے قبیلے کے سردارتھے ،اوراسی وجہ سے خودان کی بھی خوب شان وشوکت اوربڑی حیثیت تھی ، لہٰذااس چیزکے لازمی نتیجے کے طورپران کے مزاج میں کچھ تندی وتیزی تھی،جبکہ دعوتِ دین کے کام میں تندی یادرشتی کی بجائے حکمت  محبت  اورنرمی ضروری ہواکرتی ہے،چنانچہ جب انہوں نے اپنے علاقے میں دعوتِ اسلام کا آغازکیاتوصورتِ حال کچھ ایسی بنی کہ سب سے پہلے توان کے والدجوکافی عمر رسیدہ تھے   ان کے قریب  آئے،تب انہوں نے اپنے والدسے کہا’’ آپ ذرہ مجھ سے دورہی رہئے ، کیونکہ اب وہ پہلے والامعاملہ نہیں رہا‘‘ والد نے بڑی حیرت سے دریافت کیا’’کیوں بیٹا؟‘‘طفیلؓ نے جواب دیا’’میں مسلمان ہوچکاہوں ،محمد ﷺ کادین اختیارکرچکاہوں ‘‘والدنے کہا’’ارے میرے بچے !کیا میر ا دین کبھی تمہارے دین سے جدا ہوسکتا ہے؟جو تمہارا دین   وہی میرابھی دین‘‘تب طفیلؓ نے کہا’’ٹھیک ہے ، آپ جائیے ،نہا دھوکر صاف ستھرا لباس پہن کر آئیے‘‘اس پران کے والدگئے اورنہا دھو کر صاف ستھرالباس پہن کر آئے،اورتب طفیلؓ نے انہیں کلمۂ حق پڑھایا ، دینِ اسلام کے بارے میں کچھ بنیادی اورضروری باتیں بتائیں  اوریوں طفیلؓ کے عمررسیدہ والد مسلمان ہوگئے۔

اس کے بعدطفیلؓ کی بیوی ملاقات اوراستقبال کی غرض سے  آئیں ،انہوں نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا’’تم اب مجھ سے دورہی رہو‘‘وہ انتہائی تعجب وحیرت کے ساتھ ان کی جانب دیکھتے ہوئے بولی’’کیوں ؟‘‘ انہوں نے جواب دیا’’میں مسلمان ہوچکاہوں ، ہمارے راستے جداہوچکے ہیں ،اب ہماراتمہاراکوئی تعلق نہیں ‘‘وہ کہنے لگی’’جو آپ کا دین   وہی میرابھی دین‘‘تب انہوں نے اسے تاکید کرتے ہوئے کہا’’ٹھیک ہے ،جاؤ، نہا دھو کر صاف ستھرالباس پہن کر آؤ‘‘تب اس نے ایساہی کیا،جس کے بعدانہو ں نے اسے کلمۂ حق پڑھایا،اوروہ بھی مسلمان ہوگئی۔

islamic-woman-chalo-masjid-com

اس کے بعدحضرت طفیلؓ نے اپنے قبیلۂ دَوس والوں کودینِ اسلام کی طرف دعوت کاسلسلہ شروع کیا چونکہ یہ ان سبھی کے سردار اور فرمانروا تھے جبکہ وہ سب ان کے ماتحت   بلکہ ان کی رعیت تھے لہٰذاحاکم ومحکوم کے کے مابین تخاطب اورگفتگوکاجواندازپہلے سے ہی چلا آرہاتھا،یعنی لہجے میں کچھ سختی اور درشتی تھی،فطری اورغیراختیاری طورپروہی اندازاب دعوتِ دین کے موقع پربھی کافی حد تک برقرار اور اثرانداز رہا،جس کالازمی نتیجہ یہ بر آمد ہوا کہ ان کے اتنے بڑے قبیلے میں سوائے ایک شخص (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ) کے باقی کسی نے ان کی بات نہیں مانی   اورصاف انکارکردیا جس پریہ کافی دلبرداشتہ ہوگئے آخرکچھ عرصے بعدانہوں نے دوبارہ مکہ جانے اوروہاں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکراس بارے میں مشاورت کافیصلہ کیا

چندہی دنوں بعدحضرت طفیل ؓ دوبارہ تہامہ سے مکہ کی جانب عازمِ سفرہوئے تواس بار تمام قبیلہ ٔ دَوس میں سے ان کے واحدہم مذہب اوردینی بھائی حضرت ابوہریرہ ؓ بھی ہمراہ تھے،دونوں حضرات مکہ پہنچے ،رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے،رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ابوہریرہؓ کی یہ پہلی اورمختصرملاقات تھی

Leave a Reply