You are currently viewing تجا رتی قافلہ اور قریشیو ں کی سا زش

تجا رتی قافلہ اور قریشیو ں کی سا زش

آخر تین دن بعد وہ شخص اونٹ پر سوار مکہ میں داخل ہوا جسے حضرت ابوسفیان نے بھیجا تھا وہ مکہ کی وادی کے درمیان میں پہنچ کر اونٹ پر کھڑا ہوگیا اور پکارا:

قریش!اپنے تجارتی قافلے کی خبر لو،تمہارا جو مال و دولت ابوسفیان لے کر آرہے ہیں،اس پر محمد حملہ کرنے والے ہیں جلدی مدد کو پہنچو اس تجارتی قافلے میں سارے قریشیوں کا مال لگا ہوا تھا،چنانچہ سب کے سب جنگ کی تیاری کرنے لگے جو مال دار تھے،انھوں نے غریبوں کی مدد کی تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد جنگ کے لیے جائیں جو بڑے سردار تھے، وہ لوگوں کو جنگ پر ابھارنے لگے ایک سردار سہیل بن عمرو نے اپنی تقریر میں کہا:اے قریشیو!کیا یہ بات تم برداشت کرلو گے کہ محمد اور ان کے بے دین ساتھی تمہارے مال اور دولت پر قبضہ کرلیں، لہٰذا جنگ کے لیے نکلو جس کے پاس مال کم ہو،اس کے لیے میرا مال حاضر ہے اس طرح سب سردار تیار ہوئے،لیکن ابولہب نے کوئی تیاری نہ کی،وہ عاتکہ کے خواب کی وجہ سے خوف زدہ ہوگیا تھا،وہ کہتا تھا:عاتکہ کا خواب بالکل سچا ہے،اور اسی طرح ظاہر ہوگا ابولہب خود نہیں گیا،لیکن اس نے اپنی جگہ عاص بن ہشام کو چار ہزار درہم دےکر جنگ کے لیے تیار کیا، یعنی وہ اس کی طرف سے چلا جائے ادھر خوب تیاریاں ہورہی تھیں،ادھر آنحضرت مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے مدینہ سے باہر بئر عتبہ نامی کنویں کے پاس لشکر کو پڑاؤ کا حکم فرمایا آپ نے صحابہ کرام کو اس کنویں سے پانی پینے کا حکم دیا اور خود بھی پیا یہیں آپ نے حکم فرمایا:مسلمانوں کو گن لیا جائے سب کو گنا گیا،آپ نے سب کا معائنہ بھی فرمایا جو کم عمر تھے،انہیں واپس فرمادیا واپس کیے جانے والوں میں حضرت اسامہ بن زید اور رافع بن خدیجہ،براء بن عازب،اسید بن زھیر،زید بن ارقم اور زید بن ثابت شامل تھے جب انہیں واپس چلے جانے کا حکم ہوا تو عمیر بن ابی وقاص رونے لگے آخر آپ نے انہیں اجازت دے دی،چنانچہ وہ جنگ میں شریک ہوئے اس وقت ان کی عمر ١٦ سال تھی۔

روحاء کے مقام پر آپ  نے لشکر کو گننے کا حکم دیا۔گننے پر معلوم ہوا مجاہدین کی تعداد ٣١٣ ہے۔آپ  یہ سن کر خوش ہوئے اور فرمایا:

“یہ وہی تعداد ہے جو طالوت کے ساتھیوں کی تھی،جو ان کے ساتھ نہر تک پہنچے تھے۔”( طالوت بنی اسرائیل کے ایک نیک مجاہد بادشاہ تھے،ان کی قیادت میں ٣١٣ مسلمانوں نے جالوت نامی کافر بادشاہ کی فوج کو شکست دی تھی)

لشکر میں گھوڑوں کی تعداد صرف پانچ تھی۔اونٹ ستر کے قریب تھے۔اس لیے ایک ایک اونٹ تین تین یا چار چار آدمیوں کے حصے میں دیا گیا۔

آپ  کے حصے میں جو اونٹ آیا، اس میں دو اور ساتھی بھی شریک تھے۔آپ  بھی اس اونٹ پر اپنی باری کے حساب سے سوار ہوتے اور ساتھیوں کی باری پر انہیں سوار ہونے کا حکم فرماتے  اگرچہ وہ اپنی باری بھی آپ  کو دینے کی خواہش ظاہر کرتے  وہ کہتے “اے اللہ کے رسول!آپ سوار رہیں  ہم پیدل چل لیں گے۔”

جواب میں آپ  فرماتے “تم دونوں پیدل چلنے میں مجھ سے زیادہ مضبوط نہیں ہو اور نہ میں تمہارے مقابلے میں اس کی رحمت سے بےنیاز ہوں۔”( یعنی میں بھی تم دونوں کی طرح اجر کا خواہش مند ہوں )۔روحاء کے مقام پر ایک اونٹ تھک کر بیٹھ گیا۔آپ  پاس سے گزرے تو پتا چلا،اونٹ تھک کر بیٹھ گیا ہے اور اٹھ نہیں رہا۔آپ  نے کچھ پانی لیا۔اس سے کلی کی۔کلی والا پانی اونٹ والے کے برتن میں ڈالا اور اس کے منہ میں ڈال دیا۔اونٹ فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور پھر اس قدر تیز چلا کہ لشکر کے ساتھ جاملا۔اس پر تھکاوٹ کے کوئی آثار باقی نہ رہے۔

اس غزوے کے موقع پر حضور نبی کریم  نے حضرت عثمان کو  مدینہ منورہ ہی میں ٹھہرنے کا حکم فرمایا،وجہ اس کی یہ تھی کہ ان کی زوجہ محترمہ اور آپ  کی بیٹی سیدہ رقیہ  بیمار تھیں۔آپ  نے حضرت عثمان سے فرمایا”تمہیں یہاں ٹھہرنے کا بھی اجر ملے گا اور جہاد کرنے کا اجر بھی ملے گا۔”

اس موقع پر آپ  نے مدینہ منورہ میں حضرت ابولبابہ کو اپنا قائم مقام بنایا۔طلحہ بن عبید اور سعید بن زید  کو جاسوسی کی ذمے داری سونپی تاکہ یہ دونوں لشکر سے آگے جاکر قریش کے تجارتی قافلے کی خبر لائیں۔نبی کریم  نے انہیں مدینہ منورہ سے ہی روانہ فرمادیا تھا۔روحاء کے مقام سے اسلامی لشکر آگے روانہ ہوا۔عرق ظبیہ کے مقام پر ایک دیہاتی ملا۔اس سے دشمن کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہوسکا۔اب لشکر پھر آگے بڑھا۔اس طرح اسلامی لشکر ذفران کی وادی تک پہنچ گیا۔اس جگہ آپ  کو اطلاع ملی کہ قریش مکہ ایک لشکر لے کر اپنے قافلے کو بچانے کے لیے مکہ سے کوچ کرچکے ہیں۔ آپ  نے یہ اطلاع ملنے پر تمام لشکر کو ایک جگہ جمع فرمایا اور ان سے مشورہ کیا کیونکہ مدینہ منورہ سے مسلمان صرف ایک تجارتی قافلے کو روکنے کے لیے روانہ ہوئے تھے  کسی باقاعدہ لشکر کے مقابلے کے لیے نہیں نکلے تھے  اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے باری باری اپنی رائے دی 

arbi-man-chlao-masjid-com-2

حضرت مقداد نے عرض کیا: “اے اللہ کے رسول! آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے، اس کے مطابق عمل فرمایئے،ہم آپ کے ساتھ ہیں۔اللہ کی قسم! ہم اس طرح نہیں کہیں گے جس طرح موسیٰ  کو بنی اسرائیل نے کہا تھا کہ آپ اور آپ کا رب جاکر لڑ لیجئے،ہم تو یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں ہم آپ کے ساتھ ہیں،ہم آپ کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں لڑیں گے،آخر دم تک لڑیں گے۔حضرت مقداد کی تقریر سن کر آپ  کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا۔آپ مسکرانے لگے۔حضرت مقداد کو دعا دی۔حضرت ابوبکرصدیق اور حضرت عمر نے بھی تقاریر کیں.  ان کی تقاریر کے بعد نبی کریم  نے انصاری حضرات کے طرف دیکھا،کیونکہ ابھی تک ان میں سے کوئی کھڑا نہیں ہوا تھا۔اب انصاری بھی آپ  کا اشارہ سمجھ گئے،چنانچہ حضرت سعد بن معاذ اٹھے اور عرض کیا: “اے اللہ کے رسول!شاید آپ کا اشارہ ہماری طرف ہے.  تو عرض ہے کہ ہم ایمان لاچکے ہیں،آپ کی تصدیق کرچکے ہیں اور گواہی دے چکے ہیں،ہم ہر حال میں آپ کا حکم مانیں گے،فرماں برداری کریں گے۔” ان کی تقریر سن کر آپ  کے چہرے پر خوشی کے آثار ظاہر ہوئے،چنانچہ آپ  نے فرمایا “اب اٹھو،کوچ کرو، تمہارے لیے خوش خبری ہے،اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ ہمیں فتح دے گا۔”