تعارف
رسول اللہ کے جلیل القدرصحابی حضرت ابوہریرہ ؓ تاریخِ اسلام کاایسا روشن ستارہ ہیں کہ اس دنیامیں شاید ہی کوئی مسلمان ہوگا جو ان کے نام سے واقف ناہو، خصوصاً جب بھی رسول اللہ کی کسی حدیث کا تذکرہ ہوگا تو خود بخود ذہن میں ان کانام ابھرنے لگے گاکہ شاید یہ حدیث انہی سے مروی ہوگی
قبول اسلام
رسول اللہ کی بعثت کے بعد جب ابھی مکی دورہی چل رہاتھا،ہجرتِ مدینہ کی نوبت نہیں آئی تھی ، نبوت کا گیارہواں سال چل رہاتھا، تب وہاں مکہ میں طفیل بن عمروالدوسی کی آمدہوئی تھی،جوکہ اُس وقت اپنے پرانے دین (یعنی)شرک پرہی قائم تھے، نیزجوکہ ایک مشہور اور بہت ہی طاقتور قبیلے ’’دَوس‘‘کے سردار تھے،یہ قبیلہ مکہ سے جنوب کی جانب ’’تہامہ‘‘نامی علاقے میں آباد تھا،جس کا کچھ حصہ آجکل حجاز(سعودی عرب) میں جبکہ دیگرکچھ حصہ ملکِ یمن میں ہے۔
طفیل بن عمروالدوسی اُس وقت رسول اللہ سے بہت متأثر ہوئے تھے ، اور پھر مشرف بہ اسلام ہوگئے تھے،اورتب مکہ مکرمہ سے اپنے علاقے ’’تہامہ‘‘کی جانب واپسی کے بعدانہوں نے وہاں اپنے قبیلے والوں کودینِ برحق کی طرف دعوت کاسلسلہ شروع کیاتھا۔
دعوتِ دین کے سلسلہ میں ان کی اس محنت وکوشش کے نتیجے میں ایک شخص ’’ابوہریرہ‘‘توفوراً ہی اس دعوتِ حق پر لبیک کہتے ہوئے مسلمان ہوگئے تھے،البتہ باقی افراد میں سے اکثریت کی طرف سے ابتداء میں انہیں (یعنی طفیل کو) کافی مخالفت اورمزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا، البتہ بعدمیں رفتہ رفتہ وہ لوگ بڑی تعداد میں دینِ اسلام قبول کرتے چلے گئے تھے۔
ہجرت مدینہ
اس کام میں کافی عرصہ لگ گیاتھا،حتیٰ کہ ہجرتِ مدینہ کے بھی مزیدچھ سال بعد سن سات ہجری میں (یعنی طفیل بن عمروالدوسی کے قبولِ اسلام کے تقریباً سات یاآٹھ سال بعد) جن دنوں غزوۂ خیبرپیش آیاتھا انہی دنوں طفیل بن عمروالدوسی اپنے قبیلے میں سے دینِ اسلام قبول کرلینے والے افرادکی قیادت کرتے ہوئے (جوکہ ۸۰ گھرانوں پرمشتمل تھے) طویل مسافت طے کرتے ہوئے ’’تہامہ‘‘سے مدینہ آپہنچے تھے، تب ان کی آمدپر رسول اللہ نے نہایت مسرت کااظہارفرمایا تھا اورانہی افراد میں اسی قبیلے سے تعلق رکھنے والے حضرت ابوہریرہ ؓ بھی شامل تھے۔
الغرض رسول اللہ کی بعثت کے گیارہویں سال ’’تہامہ‘‘میں آبادمشہور قبیلۂ دوس کے سردار حضرت طفیل بن عمروالدوسی ؓ کے قبولِ اسلام اور پھر ان کی طرف سے اپنے قبیلے والوں کو دعوتِ اسلام کے سلسلہ میں محنت وکوشش کے نتیجے میں حضرت ابوہریرہ ؓ مسلمان ہوئے تھے،اور پھر اپنے اسی سردار (حضرت طفیل ؓ)کی زیرِ قیادت ہی تہامہ سے سفرکرتے ہوئے ۷ھ میں مدینہ پہنچے تھے ۔
حضرت ابوہریرہ ؓ کااصل نام ’’عبدشمس‘‘تھا،یعنی سورج کابندہ۔دراصل اُس معاشرے میں قبل ازاسلام جوجہالت کی تاریکیاں نیز عقیدہ وایمان کے معاملے میں جوخرابیاں اورگمراہیاں چہارسو پھیلی ہوئی تھیں انہی میں سے ایک گمراہی یہ بھی تھی کہ وہ لوگ سورج کی تعظیم کیا کرتے تھے،اور اسی وجہ سے ان میں ’’عبدشمس‘‘نام عام تھا۔
لیکن رسول اللہ کی خدمت میں جب حاضری ہوئی تو آپؐ نے ان کانام ’’عبدشمس‘‘ سے بدل کر ’’عبدالرحمن‘‘رکھ دیا تھا۔
البتہ حضرت ابوہریرہ ؓ اپنے نام ’’عبدالرحمن ‘‘کی بجائے اپنی کنیت ’’ابوہریرہ‘‘ سے ہمیشہ کیلئے مشہورہوگئے،’’ہریرہ‘‘کے معنیٰ ہیں ’’بلی‘‘دراصل ان کی ایک بلی تھی ، جوانہیں بہت ہی پیاری تھی،اکثر اسے اپنے ساتھ ہی رکھتے تھے،لہٰذااسی نسبت سے ’’ابوہریرہ‘‘یعنی ’’بلی والے‘‘ مشہور ہوگئے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ ۷ھ میں جب پہلی باراپنے علاقے تہامہ سے مدینہ آئے تب یہ اٹھائیس سال کے جوان تھے مسجد نبوی سے بالکل متصل ہی ایک ’’صفہ‘‘ یعنی چبوترا تھا،جہاں غریب اورمسکین قسم کے مسلمان مقیم رہتے تھے،جنہوں نے اپنی زندگیاں کسبِ فیض اورتحصیلِ علمِ دین کی خاطر وقف کر رکھی تھیں
حضرت ابوہریرہ ؓ نے بھی مسجدِنبوی سے متصل اس ’’صفہ‘‘کو اپنا مسکن بنایا، اور شب و روز اللہ کی عبادت میں نیزتحصیلِ علمِ دین میں مشغول ومنہمک رہنے لگے،چونکہ اہل وعیال توتھے نہیں لہٰذا فرصت بھی خوب میسر تھی۔
البتہ ان کی صرف ایک عمر رسیدہ ماں تھیں جن کانام ’’اُمیمہ‘‘تھا،اور وہ دینِ نصرانیت کی پیروکار تھیں ،،حضرت ابوہریرہ ؓ بہت کوشش کیا کرتے تھے کہ ان کی والدہ بھی دینِ اسلام قبول کرلیں ،لیکن ان کی والدہ اپنا دین ترک کرنے پرکسی صورت آمادہ نہیں تھیں ، جس پر ابوہریرہؓ بہت ہی دکھی اورپریشان رہاکرتے تھے،اورہمیشہ بڑی ہی محبت اور احترام کے ساتھ انہیں دینِ اسلام قبول کرلینے کی دعوت دیا کرتے تھے۔
تبلیغ دین
انہی دنوں ایک روزجب حضرت ابوہریرہ ؓنے حسبِ معمول اپنی والدہ کودینِ اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تویہ دعوتِ حق قبول کرنے کی بجائے وہ کافی ناراض ہوگئیں ،مزید یہ کہ اس موقع پرانہوں نے کوئی نامناسب بات بھی کہی جس پرابوہریرہؓ کوبہت ہی صدمہ ہوا، فوراً وہاں سے روانہ ہوئے ،اور زار وقطار روتے ہوئے رسول اللہ کی خدمت میں پہنچے،رسول اللہ نے جب ان کی یہ کیفیت دیکھی تودریافت فرمایاکہ ’’اے ابوہریرہ ! آپ کیوں رورہے ہیں ؟‘‘تب جواب میں انہوں نے آپؐ کے سامنے تمام ماجرا سنا ڈالا اورپھر گلوگیر آواز کے ساتھ عرض کیاکہ ’’اے اللہ کے رسول!آپ میری والدہ کیلئے دعاء کیجئے کہ اللہ ان کے دل کودینِ اسلام کی طرف راغب کردے‘‘۔تب آپؐ نے ان کی والدہ کیلئے ہدایت کی دعاء فرمائی۔
اس کے بعدحضرت ابوہریرہ ؓ واپس گھرکی طرف چل دئیے،وہاں پہنچ کر دیکھا کہ گھر کا دروازہ بند ہے،اورکچھ پانی بہنے کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی،جیسے نہاتے دھوتے وقت پانی کی آواز آیا کرتی ہے اورجب یہ اندر داخل ہونے لگے تواندر سے والدہ کی آواز آئی جو کہہ رہی تھیں ’’ابوہریرہ!اسی جگہ رکے رہو،ابھی اندر مت آنا‘‘ تب یہ وہیں رک گئے،پھر کچھ دیر بعد آواز آئی ’’ابوہریرہ!اب اندرچلے آؤ‘‘تب یہ اندرچلے گئے۔
جونہی اندرداخل ہوئے تودیکھاکہ ان کی والدہ نے نہادھوکرصاف ستھرے کپڑے پہن رکھے ہیں ،اورانہیں دیکھتے ہی انہوں نے بآوازِبلندیہ الفاظ کہے: أشہدأن لاالٰہ الااللہ، وأشہدأن محمداًرسول اللہ‘‘۔
والدہ کی زبان سے یہ الفاظ سنتے ہی ابوہریرہؓ کی خوشی کاکوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا بے اختیارآنکھوں سے آنسوبہنے لگے اب دوبارہ فوراًاسی وقت پلٹے اوررسول اللہ کو اس چیزکی اطلاع دینے کی غرض سے روانہ ہوگئے
ابوہریرہ ؓ ابھی کچھ ہی دیرقبل بھی اسی راستے پرچلتے ہوئے رسول اللہ کی خدمت میں پہنچے تھے،تب بھی ان کی آنکھوں سے آنسوبہہ رہے تھے اوراب دوبارہ اسی راستے پررواں دواں تھے،اوراب بھی آنکھوں سے آنسورواں تھے،البتہ پہلی باروہ غم کے آنسوتھے اوراس بار یہ خوشی کے آنسوتھے اورپھراسی کیفیت میں رسول اللہ کی خدمتِ اقدس میں پہنچے بہتے ہوئے آنسؤوں اوربھیگی پلکوں کے ساتھ یہ خوشخبری سنائی ، اوربڑے ہی جذباتی اندازمیں یوں کہنے لگے’’اے اللہ کے رسول!اللہ نے آپ کی دعاء قبول فرمالی میری والدہ مسلمان ہوچکی ہیں ‘‘جس پرآپؐ نے نہایت ہی مسرت کااظہارفرمایا۔ )